ایرانی قالینوں کی خوبصورتی اور معیار کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اب مارکیٹ میں نئے کھلاڑی آ چکے ہیں اور گزشتہ تیس برسوں سے ایرانی قالینوں کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے
دنیا کے بدلتے ہوئے ذوق اور ایشیا میں بڑھتی ہوئی مسابقت نے ایرانی قالین سازوں کو اپنی دو ہزار سالہ پرانی روایت بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایرانی تاجر اپنے قالینوں کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے اور ان کا سائز تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں
پینسٹھ سالہ احد عظیم زادے خود کو دنیا میں ایرانی قالینوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ایک بڑا انقلاب آ رہا ہے‘‘
ایران میں روایتی طور پر بنے ہوئے قالین تیز اور شوخ رنگوں میں پھولوں کے ڈیزائنوں کے حوالے سے مشہور ہیں، لیکن گزشتہ تیس برسوں سے ان کی فروخت میں کمی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے ہاتھ سے بنے قالین مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز یونین کے سربراہ احمد کریمی بتاتے ہیں ”1994ع میں بیرون ملک فروخت ہونے والے ایرانی قالینوں کی مالیت 1.7 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور یہ ہماری غیر پیٹرولیم برآمدات کا چالیس فیصد تھا‘‘
انہوں نے بتایا کہ 2019 اور 2020ع میں یہ مالیت کم ہو کر 70 ملین ڈالر تک رہ گئی تھی۔ اسی طرح سن 2000ع میں ہاتھ سے بنے ہوئے قالینوں کی عالمی برآمدات میں ایران کا حصہ 32 فیصد رہا۔ 2019ع کے مقابلے میں یہ تقریباً 8 فیصد کم تھا کیونکہ مارکیٹ میں چین اور بھارت جیسے کھلاڑی آ چکے تھے
احمد کریمی کے مطابق بین لاقوامی پابندیوں نے بھی ایرانی قالین بافی کی صنعت کو متاثر کیا ہے، تاہم اس زوال کی کئی دیگر اہم وجوہات بھی ہیں
قالین برآمد کرنے والے احد عظیم زادے کہتے ہیں کہ مستقبل ہاتھ سے بنے ہوئے جدید اور نئے ڈیزائن والے قالینوں کا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے تہران میں ہاتھ سے بنے قالینوں کی ایک نمائش سے بھی خطاب کیا۔ اس سات روزہ سالانہ تقریب میں ایران بھر سے تقریباً چار سو نمائش کنندگان شریک تھے
اس ایرانی نمائش میں کئی نئے ڈئزائن والے قالین بھی رکھے گئے ہیں۔ نمائش میں خطاب کرتے ہوئے عظیم زادے کا کہنا تھا ”ایسے ڈیزائن جدید گھروں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ نئے قالینوں کے رنگ ہلکے ہیں اور سائز چھوٹے ہیں‘‘
نئے ڈیزائن والے قالین سستے بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی قیمت تین ہزار یا پھر چار ہزار ڈالر ہے، جب کہ عظیم زادے کے پاس تبریز میں تیار کردہ دو ہزار مربع میٹر کا ایک روایتی قالین بھی ہے، جس کی قیمت ایک سو بیس ملین ڈالر ہے۔ ان کے پاس کاشان کا ایک سو ستر سال پرانا پیس بھی ہے، جو تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر میں دستیاب ہے
عظیم زادے کے مطابق اس نمائش میں بھی زیادہ تر روایتی قالین ہی رکھے گئے ہیں لیکن مستقبل میں ان کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں ”اگلے سال یہاں ستر فیصد تک جدید قالینوں کی نمائش ہوگی‘‘
برآمد کنندگان کی یونین سے تعلق رکھنے والے کریمی افسوس کا ظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”آج کل ایرانی قالین کو دروازے کے سامنے رکھنے والا کارپٹ سمجھا جا رہا ہے جب کہ ماضی میں یہ ایک سرمایہ کاری تھی، یہ بطور آرٹ کا نمونہ اپنی حیثیت کھو چکا ہے‘‘
ایک اور تاجر عباس عرسین کا کہنا ہے ”مارکیٹ میں بھارت، پاکستان، ترکی اور چین جیسے ممالک آ چکے ہیں کیوں کہ ایران کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات محدود ہو چکے ہیں، ہم ان تبدیلیوں کا اندازہ نہیں لگا پائے، جو عالمی منڈی میں آ رہی تھیں۔‘‘
تاہم اب بھی بہت سے ایرانی نئے اور جدید ڈیزائنوں والے قالینوں کی طرف نہیں جانا چاہتے
ایران کارپٹ کمپنی کے بیالیس سالہ ڈائریکٹر مہدی جمشیدی کا کہنا ہے ”ایک سال پہلے ہم نے جدید ڈیزائن میں قالین بنانا شروع کیے تھے لیکن وہ ہماری مجموعی پیداوار کا صرف پانچ فیصد ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس سے آگے بڑھیں گے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ماڈرن کارپٹ کبھی بھی ایران کے روایتی قالینوں کی جگہ نہیں لے سکتے کیوں کہ روایتی قالین کی جڑیں ہماری ثقافت اور علاقے سے جڑی ہوئی ہیں
چون سالہ حامد سیاحفر بھی ایک تاجر ہیں اور تہران سے ٹورنٹو کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”نئے جیومیٹرک اسٹائل کے قالین دفتروں کے لیے تو موزوں ہو سکتے ہیں لیکن گھروں کے لیے نہیں، یہ صرف ایک فیشن ہے اور ہر فیشن کی طرح یہ بھی غائب ہو جائے گا۔‘‘