والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ٹور گائیڈ محمد جاوید گزشتہ تیس سالوں سے سیاحوں کو اندرون لاہور کے در و دیوار کے قصے سناتے ہیں، لیکن جاوید کی اپنی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں
جاوید اندرون لاہور کی گلیوں کے چپے چپے سے واقف ہیں لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ ٹور گائیڈ ہی کیوں بنے جبکہ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جس کا تعلق موسیقی سے تھا
’جاوید گائیڈ‘ کے نام سے جانے اور پہچانے جانے والے محمد جاوید اندرون لاہور کی لانگا منڈی، جہاں موسیقی کے آلات کی مشہور مارکیٹ بھی ہوا کرتی تھی، کے رہائشی ہیں
انڈپینڈنٹ اردو میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے بتایا ”میرے والد محمد عمر عرف بلے خان طبلہ بجاتے تھے۔ گھر کے جتنے مرد تھے وہ بھی طبلہ بجاتے تھے۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں اور بتانا بھی چاہتا ہوں کہ اب تو موسیقی کرنے والوں کو ’آرٹسٹ‘ کہا جاتا ہے، لیکن تیس چالیس برس پہلے ان لوگوں کے لیے ’میراثی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ مجھے یہ لفظ پسند نہیں تھا۔ میں اسکول میں پڑھتا تھا تو میرے ہم جماعت مجھے میراثی کہتے تھے، جو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں طبلہ نہیں بجانا چاہتا تھا“
جاوید کہتے ہیں ”میرے والد بضد تھے کہ میں بھی طبلہ نواز بنوں تو والدہ نے کہا کہ میں پڑھائی کے ساتھ چھوٹا موٹا کام کر لوں تاکہ والد کے ساتھ ہاتھ بٹا سکوں۔ اس طرح وہ والد کو قائل کر لیں گی کہ مجھے طبلہ نہ سکھائیں۔ میں نے ابلے ہوئے انڈے، چنے کی دال اور کبابوں کی سیخیں بیچنا شروع کر دیں۔ میں اسکول سے آکر اپنی گلی کے کنارے کھڑے ہو کر اپنا یہ کام کیا کرتا تھا۔۔ اتفاق سے میرا گھر میاں یوسف صلاح الدین کی حویلی بارود خانہ سے پندرہ بیس میٹر دور تھا۔ حویلی میں اکثر تقریبات ہوتی تھیں جن میں غیر ملکی مہمان آیا کرتے تھے“
جاوید بتاتے ہیں ”یہ اَسی کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ میں اس وقت میٹرک کر رہا تھا۔ اس وقت نہ کوئی ٹیکنالوجی تھی نہ ہماری انگریزی اچھی تھی۔ میں جب ان کی حویلی میں آنے والے غیر ملکی مہمانوں اور دیگر امرا کو دیکھتا تھا جو انگریزی میں باتیں کیا کرتے تھے اور بڑی بڑی گاڑیوں سے اترا کرتے تھے۔ جب وہ لوگ آتے تو پولیس والے ان کے لیے راستہ بنانے کے لیے میری دکان کا پھٹہ پیچھے کر دیتے۔ میں وہاں تھڑے پر بیٹھ جاتا اور سوچتا تھا کہ میں کسی طرح ان لوگوں سے رابطہ بناؤں کیونکہ مجھے لگا کہ انگریزی زبان مجھے آنی چاہیے“
انہوں نے مزید بتایا کہ بادشاہی مسجد اور لاہور قلعے سے ان کے گھر کا راستہ پانچ منٹ کی مسافت پر ہے تو شروع میں انہوں نے وہاں جانا شروع کر دیا
وہ کہتے ہیں ”اس زمانے میں وہاں اتنے غیر ملکی سیاح آتے تھے کہ کوئی دائیں سے گزرتا تھا، کوئی بائیں سے اور یہ نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ میں وہاں کسی انگریز کے پیچھے چل پڑتا۔ وہ مجھ سے پوچھتے کہ میں ان کے پیچھے کیوں چل رہا ہوں؟ میری انگریزی تو اچھی نہیں تھی پھر بھی میں انہیں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھا دیتا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان سے باتیں کروں۔ اسی دوران ایک انگریز نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ٹور گائیڈ بن جاؤں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ میں کیسے بن سکتا ہوں؟ میں تو طالب علم ہوں مجھے تو تاریخ نہیں آتی۔ اس انگریز نے کہا کہ جو غیر ملکی سیاح آتے ہیں انہیں کہا کرو کہ تم ایک طالب علم ہو اور تم ٹور گائیڈ بننا چاہتے ہو۔ میں نے یہی کیا“
جاوید کے مطابق ”اُن دنوں سیاحوں کو ایک گائیڈ بک دی جاتی تھی تو سیاح مجھ سے پوچھتے تھے کہ میں کبھی جہانگیر کے مقبرے گیا ہوں، تو میں سچ بتا دیتا کہ میں تو طالب علم ہوں اور ابھی کام سیکھ رہا ہوں تو کوئی انگریز سیاح مجھے جہانگیر کے مقبرے لے جاتا، کوئی شالامار باغ لے جاتا۔ یہ سوچ کر، کہ یہ طالب علم ہے اور اسے سیکھنے کا شوق ہے، وہ مجھے تھوڑے پیسے بھی دے دیتے اور مجھے کچھ گائیڈ بھی کر دیتے۔ اس طرح میں نے آہستہ آہستہ تاریخ کو پڑھنا شروع کیا اور پھر میں نے اسی دوران گریجوایشن بھی کر لی“
”اس کے بعد میں نے پرائیویٹ ٹور گائیڈ کا لائسنس لے لیا اور قلعے کے دروازے پر کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔ وہاں ہمارا نمبر لگتا تھا لیکن وہاں موجود پرانے ٹور گائیڈز کے ساتھ اکثر جھگڑا ہوجاتا تھا کیونکہ میں نیا تھا تو وہ مجھے پیچھے کر دیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ایک پرائیویٹ کمپنی انڈس گائیڈز میں نوکری کی۔ یہ کمپنی اس وقت بہت مشہور تھی۔ میں وہاں گائیڈ کم اور ٹورزم انچارج اور مینیجر زیادہ تھا لیکن میں گائیڈ بھی کر دیا کرتا تھا۔ وہاں میری ملاقات اختر ماموکا سے ہوئی، جو میرے استاد بنے اور مجھے بہت کچھ سکھایا“
جاوید کا کہنا ہے کہ انڈس گائیڈ کے ذریعے انہیں گلگت، ہنزہ، چترال، دراوڑ فورٹ، اوچ شریف وغیرہ جیسے پہاڑی علاقوں میں جانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کمپنی کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک کام کیا۔ وہاں سے نوکری چھوڑنے کے بعد انہوں نے لاہور فورٹ میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کر لی
انہوں نے بتایا: ’اس کے بعد میں نے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی میں نوکری کر لی۔ میں اتھارٹی کے ڈی جی کامران لاشاری کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں گائیڈ ہوں، مجھے یہاں نوکری دے دیں۔ کامران لاشاری نے کہا کہ ابھی تو یہاں بحالی کا کام چل رہا ہے، آپ کیا کریں گے؟ تو میں نے کہا کہ آپ مجھے رکھ لیں کوئی سیاح ان دیواروں کی کہانی ہی سننے آ سکتا ہے، جس پر وہ ہنس پڑے اور انہوں نے مجھے نوکری دے دی اور اب میں گذشتہ آٹھ برس سے یہاں کام کر رہا ہوں“
والڈ سٹی آف لاہور کی انچارج مارکیٹنگ، ٹورزم اینڈ کلچر تانیہ قریشی کا کہنا ہے ’جاوید کو نئی چیزیں سیکھنے اور تجربے کرنے کا بہت شوق ہے۔ جاوید نے بہت محنت کی اور اپنے کام کو سمجھا ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں تک بھی اپنا علم اور تجربہ پہنچا کر ان کی تربیت کی اور انہیں آگے لائے‘
تانیہ نے بتایا ’جاوید نے اندرون شہر کے لوگوں کے لیے ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے کہ آپ کی عمر جو بھی ہو، آپ کی تعلیم جو بھی ہو، آپ اپنی عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور آج جاوید ہمارے لیڈ ٹورسٹ گائیڈ ہیں اور ہمارا ایک اثاثہ ہیں‘
انہوں نے بتایا کہ وہ سیاحت کے حوالے سے کچھ روزناموں میں آرٹیکلز بھی لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاوید لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ٹیڈ ٹاکس (Ted Talks) بھی کر چکے ہیں
جاوید نے بتایا کہ بطور ٹور گائیڈ وہ گذشتہ تیس برس میں کئی مشہور شخصیات سے ملے اور انہیں اندرون لاہور کی گلیوں اور تاریخی عمارتوں کے ٹور کروائے۔ ”تاتارستان کے صدر یہاں آئے تو میں نے انہیں قلعے کا ٹور کرایا، اس کے علاوہ بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ، امریکی، برطانوی، جرمن سفیر اور دیگر تین سو کے قریب غیر ملکی سفیروں کو ٹورز کروا چکا ہوں“
انہوں نے بتایا ”ایک مرتبہ برٹش ہائی کمشنر، جس کا نام تھامس تھا، وہ آئے اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ جاوید ہیں؟ میں نے کہا جی، تو انہوں نے بتایا کہ اٹھارہ برس پہلے ان کے والدین یہاں آئے تھے اور ان کو بھی میں نے ٹور کروایا تھا۔ انہوں نے اپنے موبائل سے ایک تصویر نکالی، جس میں میرے بچے جو اس وقت چھوٹے تھے ان کے والدین کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب میرے ان دونوں بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، تو وہ ہنسنے لگے“
جاوید نے بتایا کہ صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری اور معروف مصنف اور سفر ناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ بھی اپنی کچھ تحریروں میں ان کا ذکر کر چکے ہیں۔