آج جس تصویر کی کہانی ہے، وہ بندر روڈ پر قائم ایک دھرم شالے کی ہے. دھرم شالاؤں، مسافر خانوں اور قافلہ سرائے کا تصور بہت پرانا ہے ، اکثر پرانے تجارتی راستوں میں قافلہ سرائے ہوتے تھے، جہاں ضرورت کی ہر چیز میسر ہوتی تھی، جن کو سندھی میں لانڈھی بھی کہا جاتا ہے. کراچی میں موجود دیھ لانڈھی بھی ،کراچی سے ٹھٹہ جانے والے روٹ پر سُکھن اور ملیر ندی کے ملاپ کی جگہ کے قریب”جمعدار جی لانڈھ” تھی، جس کا تذکرہ رچرڈ برٹن نے بھی کیا ہے. زمین کے سروے کے بعد اس علاقے میں واقع "جمعدار کی لانڈھی” (قافلہ سرائے) کی وجہ سے اس کو دیھ لانڈھی کا نام دیا گیا۔ لیکن آج آپ کو بندر روڈ پر انگریز دور میں بننے والے "حاجی محمد مولیڈنہ دھرمشالے”کے بارے میں جان کاری دینے کی کوشش کروں گا، جو عرف عام میں "مولیڈنہ مسافر خانہ” کے نام سے مشہور ہے ، اسے "مولو مسافر خانہ”بھی کہتے تھے، اس خطے میں آدھے نام کا کلچر بہت پرانا ہے، یہ آدھے نام پیار کے نام ہوتے ہیں، مولیڈنہ/مولیڈنو کو لوگ پیار سے "مولو” کہتے تھے۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ جب یہ کسی مسلمان نام سے ہے، تو پھر مسافر خانے کے بجائے دھرم شالا کیوں؟ یہی تو اس پر امن خطے کی خوبصورتی تھی، جس کو ھم نے بگاڑ کے رکھ دیا۔
بات دراصل اس طرح ہے کہ میونسپلٹی کے مشہور انجنیئر ،جیمس اسٹریچن کو یہ خیال دل میں آیا کہ کراچی میں ایک ایسا دھرم شالا ہو جس میں باہر سے آئے ہوئے غریب لوگ رہ سکیں، ویسے مخیر حضرات کے جانب سے تو مسافر خانے اور دھرم شالے تھے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے، جہاں اس وقت سندھ مدرسہ یونیورسٹی ہے، اس جگہ قافلہ سرائے ہوا کرتا تھا۔
جب جیمس اسٹریچن نے دھرم شالے کے لئے خرچ کا تخمینہ لگایا، تو میونسپلٹی کے پاس بجٹ کم تھا، اسٹریچن مایوس ہوا ، ایسے وقت میں جب پیسے کم پڑ رہے تھے، تو کراچی کے اثنا عشری خواجہ فیملی کے ایک مخیر حاجی محمد مولیڈنو/مولیڈنہ نے جیمس اسٹریچن اور کراچی میونسپلٹی کو دھرم شالا کو مکمل کرنے کے لئے پیسے دیئے۔ اس طرح پتھر کا یہ خوبصورت دھرم شالا/مسافر خانہ جیمس اسٹریچن کی نگرانی میں کراچی میونسپلٹی نے 1893ع میں مکمل کیا۔ اس کی تعمیر کا کام 1887ع میں شروع ہوا تھا۔ اس کا نام کراچی میونسپلٹی نے "حاجی محمد مولیڈنہ دھرم شالہ” رکھا.
اس طرح یہ جوائنٹ اسکیم مکمل ہوئی ،اس دھرم شالے کا خاص کمرہ آٹھ آنے کرایہ اور عام کمرہ مفت میں ہوتا تھا.
بندر روڈ پر بندر یا ٹاور کی جانب جاتے ہوئے "تھیاسافیکل ہال” (اب جمشید میموریل اسکول) سے تھوڑا آگے اورنگزیب مارکیٹ کے ساتھ یہ اب بھی موجود ہے، اس کے سامنے ٹِکُنڈَو پارک (اب عالمگیر پارک) اور شگن مینشن ہے، تھوڑے فاصلے پر ضلع لوکل بورڈ کراچی کا آفس (اب ریڈیو پاکستان بلڈنگ)، آگے کی جانب جہاں اب جامع کلاتھ مارکیٹ ہے، وہاں "سندھی جیم خانہ” تھا.
یہ دھرم شالہ ایک بہت مصروف مرکز میں ہوتا تھا. اس میں کمروں کے علاوہ 12 شیڈ بھی تھے، ایک طرف غسل خانے ہو تے تھے.
اب کچھ ذکر اس سماج سُدھارک حاجی محمد مولیڈنہ کا بھی ہو جائے ، جس نے اس نیک کام کے لئے پیسے دیے تھے.. بندر روڈ پر موجود غلام حسین خالق ڈنہ ھال اور لائبریری بھی اسی فیملی نے بنائی تھے ،مولیڈنہ اور خالق ڈنہ دونوں بھائی تھے. کراچی میں سماجی کاموں کے حوالے سے یہ مشہور تھے. کراچی میونسپلٹی کے منتخب صدر اور پاکستان کے قومی ترانے کی دھن ترتیب دینے والے احمد غلام علی چھاگلہ کے والد غلام علی چھاگلہ ، اپنے دور کے بابائے انگریزی صحافت جعفر فدو بھی اسی فیملی سے تھے۔ کھارا در میں "چھاگلہ ڈتو خواجہ مسافر خانہ(1887ع), جعفر فدو ڈسپنسری(1905ع), خالق ڈنہ گرلز سیکنڈری اسکول کھارا در (1927ع) یہ اور بہت سے ایسے ادارے اس فیملی کی طرف سے بنائے ہوئے ہیں، اس وقت غلام علی فدو اس فیملی کے بڑے کے حیثیت سے ان روایتوں کے امین ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد جب لاکھوں مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا، تو کچھ مہاجرین کو عارضی طور پر حاجی محمد مولیڈنہ دھرم شالا میں ٹھہرایا گیا تھا، جو آج تک وہیں مقیم ہیں.
جب میں نے اس دھرم شالے/مسافر خانے کا دورہ کیا، تو تنگ گلیوں سے مشکل سے گزر کر مرکزی دروازے تک آیا، تصویریں بنائیں تو کچھ رہائشی ملنے بھی آئے. ان سے بات چیت ہوئی تو وہ اس تاریخی مسافر خانے کی بربادی پر پریشان تھے. رہائشی گنجائش کم پڑنے پر اس پتھر کی عمارت میں مزید بنا پلاننگ کے کی گئی تعمیرات نے اس کے تاریخی اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے. یہاں کے رہائشیوں کہنا ہے کہ "حکومت ہمیں متبادل رہائش دے تو ہم اس تاریخی عمارت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں.”
کسی وقت دھرم شالہ کے مرکزی دروازے سے بندر روڈ تک پارک تھا، اب وہاں ان گنت چھوٹے چھوٹے دکان بنا کر قبضہ کیا گیا ہے.
کسی وقت یہ خوبصورت عمارت دور سے دکھائے دیتی تھی اور اپنی خوبصورت تعمیرات کی وجہ سے جاذب نظر تھی ،اب بے ہنگم تعمیرات نے اس کی خوبصورتی کو داغ دار کر دیا ہے. اب بھی وقت ہے، حکومت اس تاریخ کو بچا کر آنے والی نسلوں کی آگاہی کے لیے محفوظ کرے۔
آئیں، ہم سب کراچی کی اس تاریخ کو بچانے کے لیے آواز اٹھائیں ، یہ آواز تم بھی ہو اور میں بھی ہوں!