جب کینیا کے درختوں میں کھیلتی شہزادی کو اچانک ملکہ بننے کی اطلاع ملی۔۔

ویب ڈیسک

برطانیہ پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم 96 برس کی عمر میں بیلمورل میں وفات پا گئی ہیں۔ انہوں نے 70 سال تک برطانیہ پر حکمرانی کی۔

جمعرات کو ان کی صحت کے حوالے سے تشویش ظاہر کیے جانے کے بعد ان کا خاندان سکاٹ لینڈ میں ان کی رہائش گاہ پر جمع ہوا تھا۔

الزبتھ 1952 میں ملکہ بنی تھیں اور اپنے دور میں انہوں نے بڑے پیمانے پر سماجی تبدیلی دیکھی

ان کی موت کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے اور سابق پرنس آف ویلز چارلس برطانیہ کے نئے بادشاہ اور دولتِ مشترکہ میں شامل چودہ ممالک کے سربراہ ہوں گے

جب نوجوان شہزادی ملکہ بنیں

یہ 6 فروری 1952 کی بات ہے۔ ایک نوجوان برطانوی شہزادی کینیا میں ایک درخت پر چڑھی ہوئی تھیں اور قریب ہی واقع تالاب میں ایک گینڈے کے پانی پینے کا منظر دیکھ رہی تھیں کہ انہیں ان کے والد جارج ششم کی وفات کی اطلاع ملی

یہ نوجوان شہزادی تھیں الزبتھ دوم۔ ہیرلڈ نکلسن نامی سفارتکار اور سیاستدان اپنی ڈائری میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسی دن شہزادی الزبتھ کے ملازموں نے ان کے طلوعِ آفتاب کے وقت ان کے سر پر سے ایک عقاب کو فضا میں بلند ہوتے دیکھا تھا

معلوم نہیں اس عقاب کے نیک شگون کا اثر تھا یا کچھ اور۔۔ کہ یہ شہزادی اس واقعے کے ستر سال بعد تک برطانیہ کی ملکہ کے تخت پر براجمان رہیں اور انہوں نے دنیا کے کسی بھی شہنشاہ کے سب سے طویل مدت تک دورِ اقتدار کا ریکارڈ بھی قائم کر دیا، جو ان سے پہلے ملکہ وکٹوریہ کے پاس تھا

21 اپریل 1926 کو ان کی پیدائش کے وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دس برس کی عمر میں وہ تخت شاہی کی وارث ہوں گی

ان کے چچا ویلز کے پرنس اور جارج پنجم کے وارث تھے۔ شاہی تخت کی وارثت میں ان کے والد دوسرے نمبر پر تھے

11 ستمبر 1936ع کو اچانک شاہی خاندان اور الزبتھ کی زندگی میں ڈرامائی موڑ آیا۔ ان کے چچا اور اس وقت کے تخت نشین ایڈورڈ ہشتم نے تخت شاہی کو چھوڑ کر دو بار کی طلاق یافتہ امریکی خاتون والس سمپسن سے شادی کا اعلان کر دیا، جس کے بعد ان کے والد شہنشاہ بن گئے

شادی اور تخت شاہی تک رسائی

الزبتھ کی پرنس فلپ سے پہلی ملاقات 1934ع میں ہوئی، جو بہت جلد محبت میں بدل گئی۔ لیکن شادی کا معاملہ اتنا سادہ نہ تھا

پرنس فلپ شہزادے تو تھے لیکن بغیر راجدھانی کے۔ اوپر سے ان کے مالی حالات بھی انتہائی خستہ تھے۔ بہرحال ابتدائی تحفظات کے بعد بادشاہ اور ملکہ رضامند ہو گئے اور نومبر 1947ع میں یہ محبت شادی پر منتج ہوئی

1952 میں کثرت سگریٹ نوشی سے ان کے والد کی موت واقع ہو گئی اور یہی موقع تھا، جب کینیا سے ان کی واپسی بطور ملکہ کے ہوئی۔ یہاں سے ان کے ریکارڈ ساز طویل شاہی سفر کا آغاز ہوا

ملکی اتحاد اور قومی استحکام کی علامت

جنگ عظیم دوم نے یورپ کے بیشتر ممالک سمیت برطانیہ کے سماجی ڈھانچے کو بری طرح ہلا کر رکھ ڈالا تھا۔ جنگ کے دوران فوج وردی زیب تن کرنے والی ملکہ ایسے وقت میں ملکی اتحاد اور قومی استحکام کی علامت بن کر ابھریں

ان کا عہد صنعتی و اقتصادی تبدیلوں سے لے کر سماجی و سیاسی اعتبار سے بہت ہنگامہ خیز تھا لیکن اس دوران انہوں نے براہ راست اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے یا نمایاں ہونے کے بجائے ایک علامتی آئینی سربراہ کی حیثیت سے باوقار کردار ادا کرنے کا انتخاب کیا

اتنے طویل عرصے تک ملکہ رہنے کے باوجود شاید ہی کبھی ان کے چہرے پر غصہ یا ان کے ہونٹوں سے متنازع بات سنی گئی ہو۔ کتوں اور گھوڑوں کی شوقین ملکہ کسی بھی حوالے سے ایسی سربراہ مملکت نہ تھیں، جو عوامی توجہ اور شہرت کے حصول کی ہوس رکھتی ہوں

اپنی نجی زندگی میں وہ بہترین حسِ مزاح اور عمدہ ذوق کی مالک خاتون سمجھی جاتی تھیں

بطور سربراہ مملکت ملکہ کا راج برطانیہ تک محدود نہ تھا

بطور سربراہ مملکت ملکہ کی راجدھانی دولت مشترکہ اور ان کے علاؤہ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، اینٹی گوا اور باربودا، بہاماس، بیلیز، غرناطہ، جمیکا، پاپوا نیو گنی، سینٹ لوشیا، جزائرسلیمان، سینٹ کٹس اینڈ نیوس اور سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز میں تک پھیلی ہوئی تھی

لیکن ملکہ کے دور میں چند ممالک ایسے بھی ہیں، جنہوں نے شاہی راج سے دامن چھڑاتے ہوئے اپنے جمہوری قوانین نافذ کر لیے۔ اس کی تازہ ترین مثال بارباڈوس ہے

بارباڈوس نے گذشتہ برس شاہی خاندان کی نگرانی سے خود کو آزاد کر لیا۔ 1978ع میں ڈومینیکا اور 1992ع میں یہی کام موریشس نے کیا تھا۔ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو نے 1976ع اور گیانا نے 1970ع میں ملکہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹایا تھا

ملکہ نے 1961ع میں برصغیر کا دورہ کیا، جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس وقت پاکستان کے صدر ایوب خان نے کراچی میں ان کا استقبال کیا۔ اس وقت کے اخباری تراشوں کے مطابق انہیں دیکھنے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر عوام کا سمندر امنڈ آیا تھا

اس دوران وہ لاہور بھی آئیں، جہاں انہیں خصوصی اہتمام کے ساتھ بادشاہی مسجد دکھائی گئی

اگست 1997 میں شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد ملکہ کی سردمہری شدید تنقید کی زد میں آئی۔ ملکہ اس وقت چھٹی منانے کے لیے بالمورل میں موجود تھیں۔ شدید عوامی دباؤ کے نتیجے میں وہ ڈیانا کی آخری رسومات سے ایک دن پہلے لندن پہنچیں اور براہ راست ٹی وی نشریات پر قوم سے خطاب کرنے پر رضامندی ظاہر کی

1999 میں آسٹریلیا میں انہیں بطور سربراہ مملکت ہٹانے کے لیے ریفرینڈم منعقد کیا گیا لیکن 54 فیصد سے زائد ووٹ ان کے حق میں پڑے۔ ان کے مخالفین کی اکثریت نے اس موقع پر عوام کی ملکہ سے ’شدید جذباتی وابستگی‘ کو آسٹریلیا میں اپنی شکست کی بنیادی وجہ قرار دیا

آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم اور انتخابی عمل کے ذریعے سربراہ مملکت منتخب کرنے کے علمبردار میلکم ٹرنبال نے گذشتہ برس ایک موقع پر کہا تھا کہ ’وہ ایک غیر معمولی سربراہ مملکت ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں آسٹریلیا میں بادشاہت کے حامیوں سے زیادہ ملکہ کے ذاتی پرستار زیادہ ہیں۔‘

ان کے مخالفین ملکہ کی ذاتی شخصیت کو شاہی خاندان کی طاقت اور اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے

ملکہ کے جانشین شہزادہ چارلس نئے بادشاہ

اپنی والدہ ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد شہزادہ چارلس بالآخر برطانیہ کے بادشاہ بن گئے ہیں

شہزادہ چارلس نے بادشاہ بننے کے لیے 70 برس انتظار کیا، جو کسی بھی جانشین کا برطانوی تاریخ میں عہدہ ملنے کے لیے طویل ترین انتظار ہے

اُن کے لیے یہ کردار ایک مشکل کام بھی ہوگا۔ اُن کی آنجہانی والدہ بہت زیادہ مقبول تھیں اور اُن کا احترام کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنے پیچھے ایک ایسا شاہی خاندان چھوڑا ہے، جس کی ساکھ داغدار اور تعلقات میں تناؤ ہے۔
ان میں سے ایک بکنگھم پیلس پر نسل پرستی کے طویل عرصے سے لگائے جانے والے الزامات بھی ہیں

برطانیہ کی گزشتہ ایک ہزار برس کی تاریخ میں شاہ چارلس سوئم 73 برس کی عمر میں تاج سر پر رکھنے والے سب سے عمر رسیدہ شخص ہوں گے۔ اُن کے ساتھ دوسری اہلیہ کمیلا ہیں، جن کے بارے میں برطانوی عوام کی رائے منقسم ہے

ناقدین کے مطابق نئے بادشاہ کمزور، بے کار اور اس کردار کی خومختاری کے حوالے سے کم صلاحیت کے حامل ہیں

اُن کی ماحولیات اور تعمیرات میں گہری دلچسپی کا مذاق اڑایا گیا۔ آنجہانی شہزادی ڈیانا سے ناکام ہونے والی پہلی شادی بھی شاہ چارلس سوئم سے ہمیشہ منسلک رہے گی

اُن کے حامی کہتے ہیں کہ ’چارلس کے اچھے کاموں کو نظرانداز کر کے اُن کو سمجھا ہی نہیں گیا اور یہ کہ وہ اپنے وقت سے آگے کی سوچ رکھتے ہیں، اس لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں حساس ہیں۔‘

شاہ چارلس سوئم کے حامیوں کا استدلال ہے کہ وہ تمام برادریوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنے شہریوں کے بارے میں فکر مند ہیں

ان کے پرنس ٹرسٹ چیریٹی نے تقریباً پچاس سال قبل اپنے آغاز کے بعد سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ بے روزگار اور پسماندہ نوجوانوں کی مدد کی ہے

انہوں نے ایک بار ایک ٹی وی کی دستاویزی فلم میں بتایا تھا ”مصیبت یہ ہے کہ آپ ناکام ہو رہے ہیں اور اگر آپ کچھ نہیں کرتے تب لوگ شکایت کرتے ہیں۔ اگر آپ مدد کی کوشش کرتے ہوئے پھنس جاتے ہیں تب بھی وہ شکایت کرتے ہیں“

اپنی پوری زندگی کے دوران چارلس ایک جدید طرز کی بادشاہت اور ایک تیزی سے بدلتے ہوئے اور زیادہ مساوی معاشرے کے درمیان پھنسے رہے، جہاں شاہی روایات اور بادشاہت کے ادارے کی کشش کو بھی برقرار رکھنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close