گینگ ریپ واقعے کی رپورٹنگ کی کوشش کرنے کے جرم میں قید صحافی کی ضمانت دو برس بعد منظور

ویب ڈیسک

بھارتی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والے مسلم صحافی صدیق کپّن کو ضمانت ملنے میں تقریبا دو برس کا وقت لگ گیا، ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ریپ کا شکار ہونے والی دلت لڑکی کے لیے آواز اٹھائی تھی

بھارتی سپریم کورٹ نے ریاست اترپردیش میں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی دلت برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے اہل خانہ سے انٹرویو اور احتجاج کی رپورٹنگ کی کوشش کے جرم میں سار سو دن قید کی سزا پانے والے صحافی صدیق کپن کی ضمانت تقریباً دو برس منظور کرلی

یاد رہے کہ 5 اکتوبر 2020ع میں صدیق کپّن کو اس وقت گرفتار کر کے دہشتگردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا، جب وہ ریاست اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے ہاتھرس میں اجتماعی جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑنے والی نو عمر دلت لڑکی کے خاندان سے ملنے جا رہے تھے

اس اجتماعی ریپ کیس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا اور اسی کی رپورٹنگ کے لیے وہ ہاتھرس جا رہے تھے۔ تاہم پولیس نے انہیں راستے ہی میں اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا کہ ان کا تعلق ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ نامی تنظیم سے ہے اور ان کے پاس سے جو لٹریچر برآمد ہوا، اس سے لگتا ہے کہ وہ علاقے میں ’فساد برپا کرنے‘ کے مقصد سے جا رہے تھے

صدیق کپّن کو ضمانت دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے انہیں چھ ہفتوں تک نئی دہلی میں رہنے کی ہدایت دی، جس کے بعد انہیں اپنی آبائی ریاست کیرالہ واپس جانے کی اجازت ہوگی

سپریم کورٹ نے قید رپورٹر کو اس وقت ضمانت دینے پر رضامندی ظاہر کی، جب عدالت نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال اپریل میں درج مقدمے میں پولیس کی تفتیش میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی

چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے اپنے ریمارکس میں کہا ”ہر شخص کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ (ہاتھرس) کی متاثرہ کو انصاف کی ضرورت ہے، اس کے لیے وہ سبھی کے ساتھ ایک مشترکہ آواز اٹھاتے ہیں۔ کیا قانون کی نظر میں یہ جرم ہوگا؟“

چیف جسٹس نے یہ بات اس وقت کہی جب سرکاری وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے اپنی دلیل میں یہ کہا ”کپّن اور ان کے دیگر ساتھی فسادات برپا کرنے کے لیے ایک "ٹول کٹ” کے ساتھ ہاتھرس جا رہے تھے۔“ اس پر عدالت نے جیٹھ ملانی سے پوچھا کہ آخر ضبط شدہ مواد کا کون سا حصہ اشتعال انگیز تھا؟

جسٹس بھٹ نے اس جانب نشاندہی کی کہ دسمبر 2012ع کے دہلی گینگ ریپ کیس کے بعد انڈیا گیٹ کے قریب بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا۔ ”آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے بعد قوانین میں بھی تبدیلی کی گئی تھی۔“

بنچ نے کہا کہ وہ اپیل کنندہ کی حراست کی طوالت اور کیس کے عجیب و غریب حقائق، نیز حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے رہی ہے

سن 2020ع میں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ریاست اترپردیش کی پولیس نے جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کو ان کے تین دیگر ساتھیوں سمیت اس وقت گرفتار کرلیا تھا، جب وہ ہاتھرس جنسی زیادتی واقعے کے متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے دہلی سے ہاتھرس جا رہے تھے

ابتدائی طور پر پولیس نے صدیق کپن کے خلاف مقدمے میں ذات کی بنیاد پر فساد اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا، بعدازاں، دہشت گردی کے لیے فنڈز جمع کرنے سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کی دفعات بھی شامل کیے گئے تھے

اترپردیش حکومت نے ان پر ملک سے غداری اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے سخت گیر قوانین کے تحت معاملہ درج کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ملزم کو مقدمہ چلائے بغیر مہینوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے

دوسری جانب صدیق کپن نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بحیثیت صحافی وہ صرف اپنی ذمہ داری ادا کر رہے تھے

اُس وقت صحافتی تنظیموں نے صدیق کپن کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلٰی یوگی ادیتیہ ناتھ ریاست میں امن و قانون کو برقرار رکھنے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں

نئی دہلی میں پریس کلب آف انڈیا نے بھی صدیق کپّن کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا، کہ پولیس اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک صحافی پر بھی انسدادِ دہشت گردی جیسے قوانین کا بھی استعمال کر سکتی ہے

صحافیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ملیالی صحافی کو فوراً رہا کرنے اور اس کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا

یاد رہے کہ اس سے قبل مقامی عدالتوں نے صدیق کپن کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں

صحافی صدیق کپن کی اہلیہ ریحانتھ کپن نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’مجھے بہت خوشی ہے کہ باالآخر انہیں ضمانت مل گئی‘

خیال رہے کہ 14 ستمبر 2020 کو 19 سالہ دلت خاتون کا ٹھاکر برداری کے 4 افراد نے مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنسی زیادتی کی وجہ سے نوجوان خاتون کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں اور دو ہفتے بعد دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں تھیں جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا

بھارت کے علاقے ہاتھرس میں حکام نے 30 ستمبر کی رات کے آخری پہر میں خاتون کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق ادا کی تھیں، تاہم خاتوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ جب انہوں نے آخری رسومات کے لیے رضامندی سے انکار کیا تو پولیس نے انہیں گھر کے اندر بند کر دیا تھا

مقتولہ کی آخری رسومات جبری اور خفیہ طریقے سے ادا کیے جانے کے خلاف مظاہروں میں شدت آئی تھی اور کئی صحافی اس حوالے سے رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس پہنچ گئے تھے اور ملیالم زبان کی خبروں کی ویب سائٹ ازی مخم کو خبریں فراہم کرنے والے صحافی صدیق کپن بھی ان میں سے ایک تھے

صدیق کپن کے سابق وکیل ولز میتھیوز کہتے ہیں کہ ان کو دی گئی ضمانت ’انصاف میں تاخیر‘ کا معاملہ ہے

وکیل نے بتایا کہ دو برس ہونے والے تھے اور میں کہتا ہوں کہ ضمانت کا مقدمہ عام طور پر پینتالیس سے نوے دنوں میں سنایا جاتا ہے

خیال رہے کہ جب سے بھارت میں ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نظریات کی حامل جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014 میں اقتدار کی کرسی سنبھالی ہے، تب سے بھارت میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنان اور گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آئی ہے

رواں برس مئی میں پیرس میں قائم میڈیا واچ ڈاگ ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز ‘ کے جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بتایا تھا کہ 180 ممالک میں بھارت کی درجہ بندی 142 سے 150 پر آگئی ہے

رپورٹرز وداؤٹ بارڈز کے مطابق بھارتی جیلوں میں اس وقت 9 دیگر صحافی قید ہیں

بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والی ایک تنظیم فری اسپیچ کلیکٹو کی شریک بانی گیتا سیشو نے بتایا کہ یہ ضمانت ایک مکمل طور پر غیر منصفانہ مقدمے اور قید کے دو سال کے بعد ملی ہے

گیتا سیشو نے کہا کہ ایک صحافی کو اُس وقت پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا، جب وہ محض ایک بھیانک جرم کور کرنے کے لیے سفر کر رہا ہو، یہ بھارت میں ہمارے آزادیِ اظہار کے حق کی کمزوری کی واضح مثال ہے

تجزیہ کاروں کے خیال میں صدیق کپّن کی گرفتاری بھارت میں صحافیوں کو درپیش مسائل کی محض ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ گزشتہ تقریبا آٹھ برسوں کے دوران بھارت میں صحافیوں کے لیے بے خوفی اور ایمانداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close