کمزور تنظیمی ڈھانچے اور مسلسل اختلافات کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کو سندھ کے شہری علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے
کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینئر کے عہدے پر بحال کرنے کے بعد اس معاملے پر تنظیم میں اختلافات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ تین ارکان اسمبلی سمیت سات ذمہ داران کے احتجاج پر کامران ٹیسوری سیمت دیگر شمولیت اختیار کرنے والے رہنماؤں کی تنظیم میں بحالی کا عمل وقتی طور پر روک دیا گیا ہے
رواں ہفتے ایک بار پھر ایم کیو ایم میں اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان اس وقت عملاً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک جانب وفاقی وزیر فیصل سبزواری، سابق میئر کراچی وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگر رہنما پارٹی کے سابق رہنماؤں اور کارکنان کو واپس تنظیم کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ، رکن صوبائی اسمبلی جاوید حنیف اور محمد حسین سمیت دیگر رہنما ان رہنماؤں کی پارٹی میں واپسی پر پارٹی قیادت سے نالاں ہیں
کامران ٹیسوری اور دیگر کی پارٹی میں شمولیت کے لیے ہونے والے اجلاس کے حوالے سے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ایک سینیئر رکن کا کہنا ہے ’اس اجلاس میں صرف نو افراد شامل ہوئے اور انہوں نے کامران ٹیسوری کو ناصرف پارٹی میں واپس شامل کرنے کا فیصلہ لیا بلکہ انہیں ایک انتہائی اہم عہدے پر بھی فائز کیا جو کہ پارٹی کی پالیسی اور دستور کے خلاف ہے‘
رابطہ کمیٹی کے سینیئر رکن کے مطابق ’ایم کیو ایم میں شمولیت اور تنظیم میں واپسی کا ایک طریقہ کار ہے۔ پارٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو یوں ایک اجلاس میں ناصرف تنظیم میں شامل کیا گیا بلکہ اہم عہدہ بھی دیا گیا ہے یہ خلاف ضابطہ ہے اور اس کی تنظیم میں شدید مخالفت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس شمولیت کے اعلان کے بعد سے عارضی مرکز بہادر آباد پر رابطہ کمیٹی کی کوئی بیٹھک نہیں ہوئی ہے۔ سابق میئر وسیم اختر، رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن، وفاقی وزیر فیصل سبزواری سمیت دوسرے دھڑے کا کوئی بھی رکن مرکز نہیں آیا ہے
انہوں نے بتایا ’کامران ٹیسوری اور دیگر کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کا فیصلہ وقتی طور پر روک دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رواں ہفتے رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس منقعد ہوگا، جس میں ان رہنماؤں کی واپسی اور انہیں ذمہ داریاں دینے کے حوالے سے تفصیلی غور کیا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں پہلی بار اختلافات اس وقت سامنے آئے تھے، جب سنہ 2018 میں سابق سربراہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا
اس وقت کے تنظیمی ذمہ داران اور رابطہ کمیٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فاروق ستار کو فیصلے پر نظرثانی کا کہا تھا اور یہ معاملہ اس حد بگڑ گیا تھا کہ فاروق ستار نے پارٹی سربراہی سمیت تنظیم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا
کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مظہر عباس بھی متحدہ قومی موومنٹ میں دھڑے بندی کی بات کو درست قرار دیتے ہیں
مظہر عباس کا کہنا ہے ’ایم کیو ایم کی صورتحال اس وقت بہت خراب ہے۔ ایم کیو ایم اپنی ساخت کھو بیٹھی ہے، متحدہ قومی موومنٹ کو کسی بھی سطح پر سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم میں تنازعات سامنے آئے ہیں۔ اس وقت کامران ٹیسوری سمیت دیگر کی متحدہ میں شمولیت پر اختلافات موجود ہیں۔ پارٹی کا کل ہونے والا اجلاس بھی نہیں ہوا ہے۔ اب صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے، اور ایم کیو ایم زوال کی جانب گامزن ہے۔‘
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا ’ایم کیو ایم تنظیمی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھی متحدہ کی پوزیشن مایوس کن رہنے کے امکانات ہیں۔ اس وقت بھی پارٹی میں تین سے چار گروہ موجود ہیں۔‘
دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان نے تنظیم میں اختلافات کی خبروں کی تردید کی ہے
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق کا کہنا ہے ’ایم کیو ایم میں تقسیم کی بات درست نہیں ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، رابطہ کمیٹی میں موجود اراکین تنظیم سے متعلق فیصلوں پر غور فکر کرتے ہیں۔ اس میں حمایت اور مخالفت دنوں میں رائے سامنے آتی ہے۔ ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور رابطہ کمیٹی کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بغیر نہیں کرتی۔‘
لیکن سیاسی تجزیہ نگار ایم کیو ایم کے رہنما سید امین الحق کے ”اختلافات جمہوریت کا حسن“ کے بیان کو تنظیم میں موجود انتشار کو چھپانے کی ایک روایتی کوشش سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔