منہگائی کے اس دور میں ہر سو خرچے کا چرچا ہے۔ ضروریات زندگی تک پہنچ مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور اب یہ عالم ہے کہ آمدن کی چادر کو اخراجات کے سر پر تانیں تو پاؤں ننگے اور اگر پاؤں ڈھکنے کی کوشش کریں تو سر ننگا
جب خواہشات ضروریات میں بدل جائیں، تب ایسا تو ہوگا۔ ذاتی ضروریات پر سمجھوتہ تو کیا جا سکتا ہے مگر جب بات بچوں کی ہو تو ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عمومی رویہ بھی یہی ہے کہ ادھر بچے کے منہ سے کوئی فرمائش نکلی، والدین اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مقدور بھر اسے پورا کرنے کی جستجو میں جت جاتے ہیں
چاہے قرض لینا پڑے یا انتہائی ضروری اخراجات سے صَرفِ نظر، اب چوں کہ یہ جان سے عزیز اولاد کا حکم ہے تو اسے پورا کرنا لازم ہے۔ دل پر کیا گزرتی ہے، جب تمام مہینے کا بجٹ خراب کر کے بچے کو ایک قیمتی کھلونا خرید کر دیا جائے اور اگلے دن اس کے حصے پرزے گھر بھر میں بکھرے ہوئے دکھائی دیں اور ساتھ ہی ایک نئی فرمائش
اولاد کی آنکھوں میں کوئی محرومی نظر نہ آئے، وہ اپنے ارد گرد موجود بچوں سے کسی طور کم نہ ہوں، ان کا کھانا پینا، پہننا اوڑھنا ہماری مالی حیثیت سے چاہے میل نہ کھاتا ہو مگر بچوں سے محبت اس کا جواز کہاں دیکھتی ہے
نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیسں، قیمتی گاڑیوں، بیش قیمت موبائل سیٹ اور مہنگے فاسٹ فوڈ ریستورانوں میں دوستوں کے ساتھ مزے اُڑاتے بچوں کو کبھی خیال تو آتا ہی ہو گا کہ یہ سب رقم، جو چٹکیوں میں اڑا رہے ہیں آخر کس طرح کمائی جاتی ہوگی؟
بچوں سے شکوہ نہیں لیکن کیا والدین کی طرف سے یہ رویہ درست ہے؟ آخر کون سوچتا ہو گا کہ زندگی کے باقی تمام امور کی طرح بچوں کی مالی معاملات کے بارے میں تربیت ہو پا رہی ہے یا نہیں؟ کیا ہم اس عمر سے ہی انہیں اپنے وسائل میں رہتے ہوئے خرچ کرنے کی عادت ڈال رہے ہیں؟
بچت، کفایت شعاری، فضول خرچی سے پرہیز جیسے معاملات کو تو ہمارے معاشرے میں کنجوسی، تنگ دلی اور نہ جانے کیسے کیسے مضحکہ خیز ناموں سے پکارا جاتا ہے اور اسی غیر سنجیدہ سوچ کا عکس ہماری روز مرہ زندگی میں بھی دکھائی دیتا ہے، جب قرض کی رقم بیاہ شادی جیسے غیر پیداواری معاملات میں لٹا دی جاتی ہے اور پھر مدتوں اس کی واپسی کے جتن میں زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اگر پیسا اتنا اہم ہے تو پھر اس کے استعمال کے متعلق بچوں کی تربیت سے صرف نظر کیوں کیا جائے؟
عام طور پر والدین کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ بچوں کے ساتھ آمدنی اور اخراجات کی بات کرنا قبل از وقت ہے لیکن حقیقت میں بچے کو اسی وقت میں یہ بتانا ضروری ہے کہ پیسا کیسے کمایا جاتا ہے اور کس طرح پیسا بچایا جا سکتا ہے
سات سے نو برس کی عمر کے بچوں کو ضروری اشیا کی خریداری کے لیے تنہا بھیجیں تا کہ وہ نہ صرف پیسے دے کر بقایا رقم واپس لینے کے قابل ہو سکیں بلکہ اس کا حساب بھی کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر اس بات کا اعتماد بھی پیدا ہو سکے کہ کم پیسوں میں اچھی خریداری کیسے کی جا سکتی ہے
ان کو دوسرے لوگوں کے ساتھ پیسے کے معاملات میں لین دین کا طریقہ آ سکے یہ تجربہ ان کے لیے آئندہ زندگی میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بچے کو سبق دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری نہ کی جائے
اس وجہ سے اگر آپ قوت خرید رکھتے بھی ہوں تو بچے کی ہر تین میں سے ایک خواہش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کریں کہ ابھی ہمارے پاس اس کے لئے کافی رقم موجود نہیں ہے لہٰذا جب پیسے ہوئے تب لے لیں گے۔ اس سے بچے کو انکار سننے اور اس کو سہنے کی عادت ہو سکتی ہے، جو بعد میں عملی زندگی میں مدد دیتی ہے
ہمارے ہاں مغرب کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں کہ وہاں اٹھارہ برس کی عمر کے بعد بچے کام کرنے لگتے ہیں اور اپنا روز مرہ خرچ خود اٹھاتے ہیں مگر ان مثالوں کی تقلید کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہے
لاڈ پیار اور بے جا خواہشات پوری کرتے کہیں ہم اپنے نوجوانوں کو زندگی کے بہت اہم اسباق سے محروم تو نہیں کر رہے؟ جب تمام عمر بنیادی ضروریات کے لیے پیسے کی سبیل کرتے گزر جاتی ہے تو ایسے میں پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھنے کی روش سمجھ سے بالا ہے۔ اس کی اہمیت کا ادراک ضروری ہے
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو