دستکاری کا ہنر کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہر دور میں انسان اپنے ہاتھوں سے ایسے کئی فن، نقش ونگار اور منفرد چیزیں بناتے رہے ہیں جو کہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح آج بھی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کہ دستکاری کے ہنر سے وابستہ ہیں اور بہت سی سادہ چیزوں کو اپنے اس ہنر کی بدولت انتہائی دلکش اور دلفریب بنا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے
دستکاری کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کے تہذیبی تمدن کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اسی طرح سندھ کی ثقافت کی بھی الگ پہچان ہے، جس میں اجرک، سندھی ٹوپی، مٹی کے برتن، چٹائیاں، مخصوص نقش و نگاری کے پردے، رلی اور گھر کی سجاوٹ کے لیے دوسری چیزیں شامل ہیں
پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی چند ایسے خاندان موجود ہیں، جو کہ دستکاری کے اس ہنر سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں
یہاں پر کام کرنے والے ذرائع معاش تلاش کی غرض سے کئی سال قبل سندھ کے علاقے تھر سے حیدرآباد آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کے آباؤاجداد کا تعلق راجھستان سے تھا۔ یہ لوگ حیدرآباد میں دیالداس کلب کے نزدیک روڈ کے دونوں اطراف فوٹ پاتھ پر دستکاری کی چھوٹی سی دنیا آباد کئے، اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مختلف چیزیں سجائے بیٹھیں ہیں
ایسے ہی ہنرمند دستکاروں میں سے بھگت نارائن عرف نارو جوگی بھی ہیں، جو چالیس سال سے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں تنکوں سے مختلف اور منفرد فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔ نہ صرف ان کی دکان فٹ پاتھ پر ہے، بلکہ یہی ان کا گھر بھی ہے
سندھ کے ثقافتی شاہکار بنانے والے بھگت نارائن عرف نارو جوگی کچھی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان شروع سے اس ہنر سے وابستہ رہا
مرد، خواتین، بچے بچیاں سب مل کر لکڑی کے تیلوں اور لوہے کے فریم سے ثقافتی شاہکار بناتے ہیں
نارو جوگی فٹ پاتھ پر دوپہر میں کام کرتے ہیں اور رات کو یہیں آرام کرتے ہیں
ان کے مطابق ان کا خاندان تقریباً ساٹھ ستر سال سے یہیں ہے اور تب سے وہ اسی سڑک پر رہ رہے ہیں
نارو جوگی نے بتایا ’ہم لوگ گھر کی کھڑکی اور دروازے کی چٹائیاں بناتے ہیں۔ بچوں کی کرسیاں، موڑھے بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے کام ہیں جیسے مقدس نام، وہ بھی لکھ لیتے ہیں‘
’ہمارے لیے اسکول کی کوئی سہولت موجود نہیں، نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے مدد کی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہماری محنت مزدوری سے گزر بسر ہو جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ باہر سے بھی لوگ یہاں آ کر خریدتے ہیں۔ ایران عراق وغیرہ سے بہت لوگ آتے ہیں۔ اندرون سندھ سے بھی جتنے لوگ یہاں آتے ہیں وہ بھی خریداری کرتے ہیں۔‘
یہاں کے منفرد ہنرمند دستکاروں کے مطابق سب سے مشکل کام سجاوٹی اشیاء بنانا ہے، کیونکہ ان سجاوٹی اشیاء میں شیشے کے ٹکڑے اور مختلف رنگوں کے دھاگے کے استعمال میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے اور بہت باریکی سے یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ شیشے کے مختلف ڈیزائن کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بانس کی کانی پر رکھ کر مختلف رنگ برنگے دھاگوں سے لگایا جاتا ہے
ان دستکاروں کا کہنا ہے کہ ہمارے باپ دادا کا قول ہے کہ ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے۔ انہوں نے ہمیں ہنر سکھایا، اور اس بات کی تلقین بھی کی کہ ہنر سیکھو گے تو بادشاھ بنو گے اور تعلیم حاصل کروگے تو کسی سرکاری یا نجی محکمے میں غلام ہی رہو گے
شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی اس ہنر کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں لیکن ان میں تعلیم کے حصول کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کا ایک سبب اور بھی ہے
دیالداس کلب کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھے ان دستکاروں کے مطابق ”برعکس اس کے اگر ہمارے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو وہاں کولھی یا نچلی ذات کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان بچوں سے غیر منصفانہ رویہ رکھا جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ایسے کئی بچے ہیں جنہیں سرکاری ملازمت تو نہیں ملتی لیکن کم ذات کا ہونے کے باعث سرکاری ملازم کے گھر چوکیدار یا آیا کی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہنر سکھاتے ہیں اور انہیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ سندھ کی ثقافت کا ہنر زوال پذیر نہ ہو“
یہاں کے دستکاروں کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی طور پر اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی غلامی کی زندگی جینا نہیں چاہتے
انہیں گلہ ہے کہ ”معاشرہ ہمیں ذات، رنگ روپ کے لحاظ سے کم تر سمجھ کر حقیر جانتا ہے۔ ہم بھی معاشرے میں آزادنہ رہن سہن کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم بھی دوسروں کی طرح اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں لیکن غریب کی مجبوری کا سُننا تو دور کی بات ہے آج تک کوئی حکومتی نمائندہ ہمارے اس کاشتکاری کے ہنر کو سرہانے تک نہیں آیا“
یہاں دستکاری کی مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں، جن میں مختلف مصنوئی پرندے، بچوں کے کھلونے، پردے، سیندری، اسٹول، کرسیاں، جھولے، بناؤ سنگھار کے لیے شیشے، خطاطی کے فن پارے، چٹائیاں وغیرہ شامل ہیں
دیواری سجاوٹ میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔ دیواری سجاوٹ کی چیزوں میں تصاویر، اجرک پرنٹ اور چھوٹے شیشے کے ٹکڑے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ سندھی آرٹ کا خاصہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ پھولوں کے پیچیدہ ڈیزائن، نقشے، خطاطی اور دیگر چیزیں بھی بناتے ہیں
اب یہاں چند ہی مخصوص خاندان باقی بچے ہیں، جو کہ اپنے آباؤ اجداد اور سندھ کے اس قدیمی ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں
حیدآباد میں اس دستکاری سے وابستہ لگ بھگ چالیس سے پچاس گھرانے موجود ہیں، جو کہ اسی دیالداس کلب کے پیچھے کچی جھونپڑیوں میں یا یہیں فوٹ پاتھ پر رہتے ہیں۔ یہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ صبح سے لے کر رات تک محنت کرتے ہیں۔ صبح سے لے کر رات دیر تک یہ لوگ وہیں فوٹ پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ پر کام کرتے ہیں
لیکن دستکاری کا یہ پیشہ اب زبوں حالی کا شکار ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ وسائل میں کمی اور حکومتی عدم توجہی ہے
حیدآباد دیالداس کلب کے باہر بیٹھے ان ہنرمندوں کے خوبصورت ہنر سے کئی گھر سجتے ہیں، لیکن خود ان کے پاس نہ تو رہنے کے لئے گھروں کی آسائش ہے نہ ہی ضرورت کی اشیاء موجود ہیں۔ ان لوگوں نے فوٹ پاتھ کو ہی اپنا گھر بنا رکھا ہے۔ اٹھنا بیٹھنا اور سونا یہ لوگ اپنی زندگی فوٹ پاتھ پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ دہائیوں سے اس دستکاری کے ہنر کو لے کر آج بھی اپنی زندگی اسی فوٹ پاتھ پر گزار رہے ہیں۔