کئی دنوں سے میں سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کی کوریج پر تھا، اس سے پہلے میں نے 2010، 2011 اور 2020 کے سیلابوں میں بھی سندھ کی کوریج کی تھی، مگر اس بار جو میں نے تباہی، بدانتظامی دیکھی ہے وہ سوچتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تین ہفتوں سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، دریائے سندھ کے دونوں کنارے ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سندھ کو ڈوبے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو چکا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا، میں نے میرپور خاص، بدین، عمرکوٹ، سانگھڑ، نوابشاہ، خیرپور، دادو، قمبر شہداد کوٹ اور نوشہرو فیروز سمیت کئی اضلاع مکمل طور پر سیلابی پانی میں ڈوبے دیکھے ہیں
سندھ کے چیف منسٹر نے کہا 60 لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، ایک ہفتے میں 30 لاک گھر گر کر تباہ ہو چکے ہیں، 80 لاکھ مویشی مر چکے ہیں۔ پوری سندھ کی زراعت مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے، نہ چاول کی فصل بچی نہ کھجوریں، نہ آم کے باغات بچ سکے، نہ گنے کا کھیت نہ کپاس، نہ سبزی، نہ پھل نہ فروٹ بچ سکا۔ سندھ کے زرعی اور معاشی ماہروں نے کہا ہے کہ سندھ میں 80 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے
اسکول، اسپتال، سڑکیں، پلیں، بجلی کا نظام، آبپاشی کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ سندھ کو دوبارہ سیلاب سے پہلے والی پوزیشن میں لانے کے لیے کم سے کم 25 سال درکار ہیں۔ اس کے بعد سندھ، 20 اگست 2022 سے پہلے والی پوزیشن میں آئے گا۔ سندھ میں اتنی تباہی آئی ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اسے تاریخ کے بدترین ڈزاسٹرز میں سے ایک ڈزاسٹر قرار دیا ہے
میں جب سیلاب متاثرہ علاقوں کی کوریج پر تھا تو سیلاب متاثرین ایک ایک روٹی کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔ ان کے پاس ٹینٹ نہیں تھے، دھوپ میں ندی نالوں، اور سڑکوں کے کناروں پر وہ بے یارو مددگار بیٹھے تھے، اوپر سے مچھروں کا عذاب تھا، دور دور تک سرکاری اور انتظامی مشنری کا کوئی اتا پتا نہیں تھا
لوگ ہمارے سامنے اپنے مسائل بیان کر کے رو پڑتے تھے۔ اس پورے درد کے بیچ، بے بسی اور لاچاری کا رونا روتے ہوئے بار بار ایک ہی جملہ سننے کو ملتا کہ: ”سندھ، ڈوبا نہیں، ڈبویا گیا ہے۔“ ان بے یارومددگار سیلاب زدگان کے پاس کوئی معقول دلائل تو نہیں تھے مگر صدیوں سے دریائے سندھ، پانی کے قدیمی راستوں اور ندیوں کے بہاؤ سے واقف لوگ کہہ رہے تھے کہ اگر سرکار وقت سے پہلے پانی کو درست اور قدرتی راستہ دیتی، زمینداروں کے باند ہٹواتی، نکاسی کا نظام درست کرتے تو ہم نہیں ڈوبتے
سائیں داد عالیانی میرپور خاص ضلع کا ایک قدیم گاؤں ہے، دریائے سندھ کے ایک قدیمی آبی راستے پر یہ قدیم گاؤں قائم ہے، میں جب ایک کشتی میں سوار ہو کر اس گاؤں میں پہنچا تو وہ پورا گاؤں ڈوبا ہوا تھا۔ گاؤں سے دور روڈ کے کنارے اس گاؤں کا ایک بزرگ ملا، میں نے جب اس بزرگ سے سیلاب کی صورتحال جاننے کی کوشش کی تو ان کی آنکھیں بھیگ گئیں، وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولے ”ہمارا گاؤں صدیوں پرانا ہے، کتنی بھی بارشیں ہوں، پانی آتا ہے، دو دن میں سمندر کی طرف چلا جاتا تھا مگر سندھ سرکار کے با اثر وڈیروں نے پانی کے قدرتی راستوں کی زمینوں پر قبضے کر کے بیچیں ہیں، ان کے سبب یہ پانی سمندر کی طرف نہیں جا پا رہا۔“
یہی بات مجھے دادو، خیرپور ناتھن شاہ، قمبر، جھڈو، کنری، اور عمرکوٹ میں بھی لوگوں نے بتائی۔ مجموعی طور پر لوگوں کا کہنا تھا کہ با اثر لوگوں نے اپنی زمینیں اور بنگلے بچانے کے لیے پانی کو اپنے راستوں سے جانے نہیں دیا، مصنوعی طریقے سے پانی کے راستے تبدیل کیے گئے۔ پانی کے سامنے باند بنا کر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، نتیجے میں پانی پھلتا گیا اور پوری سندھ کو ڈبوتا گیا۔ مزے کی بات کہ دادو ضلع ہو یا قمبر شہداد کوٹ، میرپورخاص ہو یا نواب شاہ، یا سانگھڑ، جہاں جہاں پانی کو روکا گیا یا اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، پانی دوسرے لوگوں کو ڈبونے کے بعد، جنہوں نے باند باندھے ان کو بھی ڈبوتا چلا گیا
جب میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی کوریج مکمل کر کے واپس کراچی لوٹا تو میں نے سندھ کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ سے دو سوالات پوچھے۔ ایک سوال ان کی پریس کانفرنس میں، اور دوسرا سوال پراوینشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے دفتر میں پوچھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ”سندھ کے لوگ کہتے ہیں، ہم ڈوبے نہیں، ہمیں ڈبویا گیا ہے۔“ دوسرا سوال یہ تھا کہ : ”14 سال سے سندھ میں پ پ پ کی سرکار ہے، آپ کی سرکار نے 14 سالوں میں ایک بھی نکاسی آب کی کوئی میگا اسکیم نہیں دی، نہ پانی کے قدرتی روٹس سے رکاوٹیں ہٹائیں؟“
چیف منسٹر سندھ نے پہلے سوال پر مجھ سے اتفاق نہیں کیا، دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”جب سندھ میں اتنی بارشیں ہوتی ہی نہیں تو نکاسی آب کا کوئی بڑا منصوبہ بنا کر کیا کریں گے۔“ بہرحال، سندھ میں یہ سوال اور یہ بحث زور پکڑتا جا رہا ہے کہ سندھ کو تیز بارشوں کے ساتھ ساتھ حکومتی بدانتظامی نے بھی ڈبویا ہے اور خوب ڈبویا ہے۔
بشکریہ: ہم سب