چندی گڑھ یونیورسٹی کی طالبات کی قابلِ اعتراض وڈیوز: طلبہ سمیت تین ملزمان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ویب ڈیسک

بھارتی ریاست پنجاب کی پولیس نے چندی گڑھ یونیورسٹی میں لڑکیوں کی مبینہ نازیبا وڈیوز پوسٹ کرنے کے معاملے میں ایک طالبہ سمیت تین افراد کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں مقامی عدالت میں ریمانڈ کی غرض سے پیش کر دیا ہے

مقامی عدالت نے پولیس کی استدعا پر ملزمان کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے پیر کے روز دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تین خاتون پولیس افسروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملے کی مکمل تفتیش کرے گی

اپنے بیان میں اُن کا کہنا تھا ’میں طلبہ، والدین اور تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے میں تمام متعلقہ افراد کی پرائيویسی اور وقار کا لحاظ رکھا جائے گا۔ ہم اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لیں گے اور جو بھی اس واقعے میں ملوث ہوا انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی‘

یاد رہے کہ بھارت کے شہر چندی گڑھ کے قریب واقع ایک نجی یونیورسٹی میں ہفتے کو رات گئے مبینہ طور پر لڑکیوں کی باتھ روم میں خفیہ طور پر بنائی گئی وڈیو وائرل ہونے کے بعد ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی یونیورسٹی میں لڑکیوں نے احتجاج شروع کر دیا اور اس دوران کچھ لڑکیاں بے ہوش بھی ہو گئی تھیں

دراصل یونیورسٹی کے ہاسٹل میں خبر پھیل گئی کہ ایک طالبہ نے کچھ دوسری طالبات کی قابل اعتراض وڈیو بنا کر شملہ میں رہنے والے ایک لڑکے کو بھیج دی ہیں

دوسری جانب پیر ہی کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں یونیورسٹی کے پرو چانسلر پروفیسر اے ایس باوا نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی اِن خبروں کو ’افواہ‘ اور ’بے بنیاد قیاس آرائی‘ قرار دیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہاسٹل کی ایک لڑکی نے ساٹھ لڑکیوں کی نازیبا وڈیوز وائرل کی ہیں

ان کے مطابق ’یونیورسٹی میں کی جانے والی ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ لڑکی نے صرف اپنی ایک وڈیو اپنے ایک دوست کو بھیجی تھی اور یہ کہ اُس کے موبائل سے کوئی دوسری وڈیو نہیں ملی ہے‘

حکام نے طلبہ کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے طلبہ، یونیورسٹی اہلکاروں، حکام اور پولیس پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس واقعے کے بعد دو دن جاری رہنے والے ہنگامے کے بعد طلبہ اور طالبات نے اپنا احتجاج ختم کر دیا ہے اور بہت سے لڑکیاں ہوسٹل سے اپنے گھروں کو چلی گئی ہیں

چندی گڑھ یونیورسٹی میں پینتیس ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ہفتے کے واقعے کے بعد اِس وقت وہاں حالات نارمل ہیں۔ پولیس اور یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی

تاہم اس واقعے کے بعد کچھ والدین اپنے بچوں کو یونیورسٹی ہاسٹلز سے واپس بلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ والدین کا کہنا ہے کہ جب تک معاملے کی مکمل تفتیش نہیں ہو جاتی وہ اپنے بچوں کو واپس ہاسٹل نہیں بھیجیں گے

یونیورسٹی کی طالبات کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی میں انٹرنیٹ بند ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلے یہ ہاسٹل لڑکوں کے لیے تھا، جسے کچھ عرصہ پہلے گرلز ہوسٹل میں تبدیل کیا گیا

کچھ طالبات اس واقعے کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے سخت حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہیں

ہوا کیا تھا؟

ایک طالبہ نے بتایا ”ہفتے کی رات ہاسٹل میں ہنگامہ ہوا۔ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک لڑکی نے وڈیو بنائی ہے جو وائرل ہو گئی ہے۔“

وائرل ہونے والی وڈیو کے حوالے سے طالبہ کا کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں لیکن پچاس ساٹھ لڑکیوں سے کہا جا رہا ہے کہ ان کی وڈیوز بنی ہیں

طالبات کی جانب سے خودکشی کی کوششوں کے بارے میں ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم کچھ طالبات کو خوف و ہراس کے بعد طبی مدد کے لیے یونیورسٹی ڈسپنسری لے جایا گیا

ایک اور طالبہ نے بتایا ’ہفتے کی شام کو معلوم ہوا کہ ہاسٹل کے ڈی بلاک میں باتھ روم میں کیمرہ لگا کر لڑکیوں کی وڈیوز بنائی گئی ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ ساٹھ لڑکیوں کی وڈیوز بنائی گئی ہیں۔‘

’میری سہیلیاں بھی اسی بلاک میں رہتی ہیں اور اس کے بعد وہ بہت خوفزدہ ہیں۔ ان کے والدین بھی پریشان ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ ہر کوریڈور میں کیمرے لگائے جائیں، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر توجہ نہیں دی

واضح رہے کہ یونیورسٹی کی ایک لڑکی پر کئی لڑکیوں کی وڈیو وائرل کرنے کا الزام ہے

پولیس نے ایک طالبہ سمیت تین افراد کو گرفتار کر کے چھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر حوالہ پولیس کر دیا ہے
وائرل وڈیو میں تقریباً ساٹھ لڑکیوں کی قابل اعتراض وڈیوز بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے

ہفتے کی رات یہ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد اتوار کی صبح تک ہنگامہ جاری رہا
پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے

ملزم لڑکی وڈیو میں اعتراف کر رہی ہے کہ وہ یہ وڈیوز شملہ میں رہنے والے ایک لڑکے کو بھیجتی تھی

ابتدائی تحقیقات کے بعد ایس ایس پی وویکشیل سونی نے کہا ’کسی بھی لڑکی کی خودکشی کی کوشش کی خبر افواہ ہے، جن لڑکیوں کو ایمبولینس میں لے جایا گیا تھا وہ دراصل احتجاج کے دوران بے ہوش ہو گئی تھیں۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ تحقیقات میں دیگر لڑکیوں کے وائرل ہونے والے وڈیوز کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے

ایس ایس پی نے کہا کہ ہاسٹل کے اندر بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی گئی اور ملزم لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close