روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی کے بعد ایک بار پھر مغرب میں اس بات پر بحث چھڑ گئی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ کیسے جواب دے گا؟
واضح رہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا ”اگر مغرب نے تنازع پر اپنی ’جوہری بلیک میلنگ‘ دکھائی تو ماسکو اپنے تمام وسیع ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا“
ان کا کہنا تھا ’اگر ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کریں گے۔ روس کے پاس جواب دینے کے لیے بہت سے ہتھیار موجود ہیں‘
تجزیہ کار اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ 1945ع میں امریکہ کی جانب سے جاپان پر بمباری کے بعد روسی صدر جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنے والے پہلے شخص بننے کے لیے تیار ہیں
روسی صدر کے اس دھمکی آمیز بیان کے بعد خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے کئی ماہرین اور حکام کے ساتھ مستقبل کے اس ممکنہ منظرنامے کے بارے میں بات کی ہے، جو روس کے جوہری حملے کی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ’ماسکو ممکنہ طور پر ایک یا ایک سے زیادہ نیوکلیئر بم میدان جنگ میں بھیجے گا‘
1.2 میگاٹن کے سب سے بڑے امریکی اسٹریٹجک وار ہیڈ یا 58 میگاٹن بم کے مقابلے میں یہ چھوٹے ہتھیار ہیں، جن میں 0.3 کلوٹن سے لے کر سو کلوٹن دھماکہ خیز طاقت ہے
اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں جو تمام جنگیں لڑنے اور جیتنے کے لیے بنائے گئے ہیں، ٹیکٹیکل بموں کو میدان جنگ میں محدود اثرات کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’روس کا یوکرین میں ٹیکٹیکل جوہری بم استعمال کرنے کا مقصد اسے خوفزدہ کر کے مذاکرات یا ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا اور ملک کے مغربی حمایتیوں کو تقسیم کرنا ہے۔‘
واشنگٹن میں انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام سینٹر فار اسٹریٹجک انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) کے عسکری امور کے ماہر مارک کینسیئن سمجھتے ہیں ’روس ممکنہ طور پر اگلے مورچوں پر جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا‘
بتیس کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے بیس چھوٹے نیوکلیئر بموں کی ضرورت پڑ سکتی ہے
کینسیئن نے کہا کہ ’صرف ایک استعمال کرنا کافی نہیں ہوگا۔‘
ماسکو اس کے بجائے ایک جامع پیغام بھیج سکتا ہے اور نیوکلیئر بم کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے گریز کر سکتا ہے یا صدر پیوٹن زیادہ تباہی اور موت کا انتخاب کر سکتے ہیں، جیسے کہ یوکرین کے فوجی اڈے پر حملہ کرنا یا کیئف جیسے شہری مرکز کو نشانہ بنانا، بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور ممکنہ طور پر ملک کی سیاسی قیادت کو ہلاک کرنا
دوسری جانب مغرب اس بارے میں تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کس طرح جوہری حملے کا جواب دے گا۔ امریکہ اور نیٹو ایٹمی خطرے کے سامنے کمزور دکھائی نہیں دینا چاہتے، تاہم وہ اس امکان سے بھی بچنا چاہیں گے کہ یوکرین میں جنگ ایک وسیع تر، تباہ کن عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو
ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا اور یہ کہ جواب صرف امریکہ کی بجائے نیٹو کی طرف سے ایک گروپ کے طور پر آنا چاہیے
وائٹ ہاؤس میں نیوکلیئر پالیسی کے سابق ماہر جان وولفسٹل کہتے ہیں ’کوئی بھی ردعمل دونوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ اس طرح کے حملے سے پیوٹث کی فوجی صورت حال میں بہتری نہیں آئی اور اس کے نتیجے میں ان کی سیاسی، اقتصادی اور ذاتی حیثیت کو نقصان پہنچا۔‘
امریکہ نے نیٹو ممالک میں اپنے سو کے قریب ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار رکھے ہیں اور وہ روسی افواج کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
ایک اور خطرہ یہ ہے کہ نیٹو کے کچھ ارکان جوہری ردعمل کو مسترد کر سکتے ہیں، جو روسی صدر کے اتحاد کو کمزور کرنے کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روسی جوہری حملے کا روایتی فوجی یا سفارتی انداز میں جواب دینا اور یوکرین کو روس پر حملہ کرنے کے لیے مزید مہلک ہتھیار فراہم کرنا زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے
اٹلانٹک کونسل میتجیو کروئینگ کا کہنا ہے کہ روسی جوہری استعمال ان ممالک جیسے کہ بھارت اور چین، کو قائل کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے جو اب تک پابندیوں میں اضافے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ، امریکہ یوکرین کو نیٹو طیارے، پیٹریاٹ اور امریکی دفاعی نظام ’تھاڈ‘ اینٹی میزائل بیٹریاں، اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کر سکتا ہے۔