وہ جو ہم فلموں میں دیکھتے تھے، سیارچے سے ٹکرانے کے لیے ناسا کے خلائی جہاز کی روانگی

ویب ڈیسک

اگر ڈائنوسار بھی اس کے بارے میں سوچتے، تو ان کی نسلیں آج ہماری دھرتی پر زندہ ہوتیں

آج ناسا ایک ایسا ہی کام کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہے، جو انسانیت نے پہلے کبھی انجام نہیں دیا تھا۔۔ یعنی جان بوجھ کر ایک خلائی جہاز کو سیارچے سے ٹکرانا!

خلا میں ایک ٹکراؤ ترتیب دیا گیا ہے، جس کے نتائج کا مشاہدہ کرنے کے لیے ناسا کے سائنس دان تیار بیٹھے ہیں

ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ: سیارچے کا مدار تھوڑا سا بدل جائے اور وہ زمین سے ٹکراؤ کے راستے پر نہ رہے

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امریکی خلائی ادارے کا یہ تجربہ زمین سے اجسام فلکی کو ٹکرانے سے روک کر اسے تباہی سے محفوظ رکھنے اور ہمارے سیارے کے دفاع کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے

ڈبل ایسٹرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (ڈی اے آر ٹی) خلائی جہاز گذشتہ نومبر میں کیلی فورنیا سے لانچ کیا گیا تھا اور یہ تیزی سے اپنے ہدف (دو مون لیٹ سیارچوں) کے قریب پہنچ رہا ہے، جن سے یہ تقریباً 14 ہزار میل فی گھنٹہ (23 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے ٹکرائے گا

تجربے سے پہلے اس بات کی یقین دہائی کی گئی کہ سیارچے، جس کا نام ڈیمورفوس (Dimorphos) ہے، اور نہ ہی اس کا بڑا بھائی جس کا نام ڈیڈیموس (Didymos) ہے، سے زمین کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

سیارچوں کا یہ جوڑا سورج کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا گزرتے ہوئے زمین سے قریب ترین فاصلہ بھی تقریباً 70 لاکھ میل ہوگا

لیکن ناسا نے یہ تجربہ اس لیے ضروری سمجھا تاکہ حقیقی ضرورت پڑنے پر ہماری تیاری کا پتہ چل سکے

ناسا کے عہدیدار لنڈلی جانسن نے گذشتہ ہفتے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا ’یہ نہ صرف ایجنسی کے لیے بلکہ خلائی تاریخ اور انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک پرجوش لمحہ ہے‘

انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو کار کے سائز کے خلائی جہاز اور 530 فٹ لمبے سیارچے کے درمیان ٹکراؤ امریکہ کے مشرقی وقت کے مطابق شام 7:14 پر ہونا چاہیے اور ناسا کی لائیو اسٹریم اس کو دیکھا جا سکتا ہے

ناسا کے منتظم بِل نیلسن کا کہنا ہے “ڈارٹ سائنسی افسانے کو سائنسی حقیقت میں تبدیل کر رہا ہے اور یہ سب کے فائدے کے لیے ناسا کی پیش بینی اور جدت طرازی کا ایک عملی ثبوت ہے۔”

ناسا کو امید ہے کہ ڈیمورفوس پر حملے سے اسے ایک چھوٹے مدار میں دھکیلا جا سکتا ہے، جو ڈیڈیموس کو گھیرنے میں لگنے والے وقت سے دس منٹ پہلے ہوگا۔ ان سیارچوں کی پوزیشن میں تبدیلی کا پتہ زمینی دوربینوں سے لگایا جائے گا

یہ تجربہ ایک ایسے تصور کو حقیقت بنا دے گا، جس کی اس سے پہلے صرف ’آرماگیڈن‘ اور ’ڈونٹ لوک اپ‘ جیسی سائنس فکشن فلموں میں کوشش کی گئی تھی

ہمارے نظام شمسی میں موجود اربوں سیارچوں اور فلکی ملبے میں سے بہت کم کو ہمارے سیارے کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اگلے سو سالوں میں ٹکراؤ جیسا کوئی امکان نہیں ہے

ناسا کے سائنس دانوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اُنہیں کسی سیارچے کی زمین سے ٹکرانے کے کسی فوری خطرے کے آثار نہیں ملے۔ تاہم وہ مستقبل میں کسی سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے امکان کے لیے تیار رہنا چاہتے ہیں

ایک ایسے حادثے سے بچنے کی تیاری، جس نے ڈائنوسار کی پوری نوع کو معدوم کر دیا تھا

اگر ڈائنوسار بھی اس کے بارے میں سوچتے، تو ان کی نسلیں آج ہماری دھرتی پر زندہ ہوتیں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close