مفلوج کر دینے والی ذہنی اذیت

ریحانہ جدون

ویسے تو کئی مثالیں موجود ہیں لیکن مجھے آج انسانی رویوں کی ایک اور مثال دیکھنے کو ملی

وہ فرش پہ بچھے بستر پر بےجان سی آنکھیں بند کیے ہوئے پڑی تھی۔ کمزور اتنی کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو جیسے…

میری نظر بار بار اس کی طرف جا رہی تھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ بیمار ہیں کیا؟؟

میرے سامنے کھڑی عورت نے اثبات میں سر ہلا دیا

میں نے پوچھا کیا ہوا ہے ان کو تو اس نے بتایا کہ ان کو فالج ہے، نہ بول سکتی ہے نہ ہل سکتی ہے اور نہ آنکھیں کھولتی ہے

آپ کا ان سے رشتہ کیا ہے؟ تو اس بھلی عورت نے جواب دیا کہ میری ساس کی بہن ہے

میں نے بیگ ایک طرف رکھا اور اس عورت کے پاس چلی گئی اور آواز دی ’آنٹی آنکھیں کھولیں‘ مگر وہ بے سدھ پڑی رہی جیسے میری صدا اسے سنائی نہ دے رہی ہو

میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور پھر آواز دی تو ذرا سی حرکت ہوئی لیکن آنکھیں پھر بھی بند ہی رہیں

میں نے اس کی آنکھیں اپنے ہاتھ سے کھولنے کی کوشش کی تو پتا چلا اس کی پلکیں آپس میں بری طرح چپک گئی ہوں جیسے…

میں نے پاس کھڑی اسی عورت سے کہا کہ ان کی آنکھیں دکھ رہی ہیں کوئی دوائی وغیرہ نہیں ڈالتی؟

اس نے آنکھوں کے قطروں کی ایک چھوٹی سی بوتل میرے ہاتھ میں لا کر دی کہ یہ ان کی دوائی ہے

میں نے اس کی آنکھ کھول کے ایک ایک ڈراپ اس میں ڈالا اور آنکھیں صاف کیں

عورت کی مدد سے انہیں اٹھا کر بٹھانے کی کوشش کرنے لگی لیکن میرے ہاتھوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے سخت سوکھی ہڈیوں کا جسم اکڑا ہوا ہے

میں نے انہیں وہیں لٹا دیا۔

اس کی یہ حالت کب سے ہے؟ میں نے پھر اسی عورت سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ تین ماہ پہلے یہ ہمارے گھر آئی تب بالکل ٹھیک ٹھاک تھی

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ایک بیٹا ہے لیکن اس کی بیوی ان کو پسند نہیں کرتی

پہلے یہ بہت خوش حال زندگی گزار رہی تھی۔ خاوند کی وفات کے بعد بیٹے نے اس کو بہت ہمت دی اور بہت خیال رکھا لیکن شادی کے بعد روز روز کے لڑائی جھگڑے سے تنگ آ کر یہ یہاں چلی آئی اور اپنے پوتے پوتیوں کو یاد کر کے بہت روتی تھی۔ اسی ٹینشن میں اس کو فالج ہوگیا

اس کی مختصر سی داستان سننے کے بعد میں خاموشی سے اس بے سدھ پڑے جسم کو تکتے سوچ رہی تھی کہ ذہنی اذیت دکھائی تو نہیں دیتی مگر شاید اسی نے اس عورت کو مفلوج کر دیا تھا۔..

کسی کو جسمانی اذیت دی جائے تو اس کی سزا قانون میں مقرر ہے اور لوگوں کو نظر بھی آجاتی ہے لیکن کیا ذہنی اذیت کی کوئی سزا ہے؟؟

میں اس پر لکھنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن اس کی حالت دیکھ کر میرے منتشر خیالات مجھے بے سکون کیے ہوئے ہیں اس لیے میں اپنے خیالات کو الفاظ میں ڈھال رہی ہوں

یہ عورت صرف اپنوں کی بےحسی اور نظراندازی یا باقی جو معاملات تھے ان کی وجہ سے خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھی

اپنوں کے رویے اسے اذیت کے پاتال میں لے گئے تھے۔ جسمانی اذیت تو پھر شاید سہل ہو پر ذہنی اذیت نہیں

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ معاشرے میں اذیت پسندی بڑھتی جا رہی ہے

آج کل تو کسی کو بھی ذہنی اذیت دینا انٹرٹینمنٹ بن چکی ہے، ہم اپنے الفاظ ادا کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے کسی کو کتنی تکلیف پہنچ سکتی ہے

جب آپ کی اذیت کو کوئی نہ سمجھے…

دیکھیں لڑائی جھگڑے اور مسئلے کا آخری حل معافی ہے، معاف کر دو یا معافی مانگ لو کیونکہ رنجشیں بڑھانے سے نہ صرف آپ بلکہ آپ سے جڑے لوگ بھی ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں

حیرت کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے نازک موضوع پر بات کم ہی کی جاتی ہے

یہ معاشرہ ہمارا معاشرہ ہے اور جس طرح ہم اذیت پسندی کو رواج بنایا ہے اس کا سدباب کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے

اس کے لیے اپنے رشتے داروں کے ساتھ مل کر خاندان کا نظام دوبارہ لانا ہوگا تاکہ مل جل کے دکھ سکھ بانٹیں اپنے خون کے رشتوں سے کنارہ کشی مت کریں یہ آپ کی سب سے بڑی اور قیمتی سپورٹ ہے

میری اس تحریر کا مقصد یہی ہے کہ ذہنی اذیت کو سمجھیں اس کے نقصانات کو سمجھیں۔ ہماری ذرا سی کوشش ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close