کورونا وائرس سے پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے 6 کھلاڑیوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے دورہ نیوزی لینڈ خطرے میں پڑ گیا یے
تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ میں قرنطینہ میں جانے والی پاکستانی ٹیم کے 6 کھلاڑیوں کے کورونا کیسز سامنے آئے ہیں، جس کے باعث دورہ نیوزی لینڈ خطرے سے دوچار ہو گیا ہے
میزبان بورڈ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں رپورٹس پازیٹیو آنے کا تو بتایا گیا لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان میں سے کتنے کرکٹرز یا کوچنگ اسٹاف کے افراد ہیں، البتہ اس بات سے ضرور آگاہ کیا گیا کہ6 میں سے 2 افراد اس سے قبل بھی وائرس کی زد میں آ چکے ہیں
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ کورونا سے متاثر ہونے والے تمام کے تمام کھلاڑی ہیں
یاد رہے کہ پاکستانی اسکواڈ نے نیوزی لینڈ آمد کے بعد آکلینڈ سے کرائسٹ چرچ پہنچ کر نواح میں واقع لنکن یونیورسٹی کے علاقہ میں ڈیرے ڈالے، مقامی حکومت کی جانب سے وضع کردہ ایس او پیز کے مطابق اسکواڈ اور مینجمنٹ کے تمام افراد کو تین دن تک الگ الگ کمروں تک محدود رکھا گیا، اس دوران ٹیسٹ کے لیے ان کے سیمپل بھی لیے گئے تھے، رپورٹ میں ان میں سے 6 ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں، انہیں اب باقی اسکواڈ سے الگ قرنطینہ میں منتقل کردیا گیا ہے، اب تمام کھلاڑیوں کے چار بار ٹیسٹ لیے جائیں گے
دوسری جانب نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے کہا ہے کہ جب تک وزارت صحت کی تحقیقات مکمل اور مہمان اسکواڈ کے تمام ارکان کلیئر نہیں ہو جاتے وہ ٹریننگ بھی نہیں کر سکیں گے، انہیں کمروں تک محدود رہنا ہوگا
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹیسٹ کے نتائج مہمان اسکواڈ کیلیے مایوس کن ہیں، لیکن اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نیوزی لینڈ میں حکومت کی جانب سے بنایا جانے والا سسٹم موثر انداز میں کام کررہا ہے، ہم ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کا انعقاد چاہتے ہیں لیکن عوام کی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی وزرات صحت سے ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی اسکواڈ کی نیوزی لینڈ روانگی سے قبل تمام کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کے4 مرتبہ کورونا ٹیسٹ ہوئے، سب کے نتائج منفی آئے تھے، فخرزمان بخار کی وجہ سے ساتھ روانہ نہیں ہو سکے، انہیں لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہی الگ رکھا گیا، پی سی بی کی میڈیکل ٹیم نے اوپنر کی نگرانی جاری رکھی، کورونا ٹیسٹ بھی کرایا نتیجہ منفی آنے پر ان کو مردان جاکر گھر میں رہنے کی ہدایت کردی گئی تھی، اب 6 کھلاڑیوں میں وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے
خیال رہے کہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے ساتھ ہی مہمان کرکٹرز کو وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مقامی حکومت کی جانب سے وضع کردہ پروٹوکولز کی خلاف ورزی کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس پر لاپرواہی برتنے پر تنقید بھی کی گئی
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس اوپیز کو نظر انداز کیے جانے کے کم از کم دو واقعات ٹیم کے نیوزی لینڈ پہنچنے کے ابتدائی 12 گھنٹوں کے دوران ہی سامنے آ گئے تھے، کمروں میں کھانا پیش کیا گیا تو ٹرے وصول کرتے وقت کئی کرکٹرز نے چہروں پر ماسک نہیں لگائے ہوئے تھے، بعد ازاں ان میں سے چند ایک نے اپنے کمروں کے دروازے کھول کر ایک دوسرے سے گفتگو شروع کر دی جو سی سی ٹی وی کیمروں ں نے ریکارڈ بھی کرلی تھی
نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ اور حکومت کے نمائندوں نے جمعرات کی صبح پاکستانی وقت کے مطابق 5بجے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے رابطہ کرتے ہوئے اس حساس معاملے پر تفصیلی بات چیت میں تحفظات کا اظہار کیا۔
نیوزی لینڈ میڈیا کے مطابق مہمان اسکواڈ کو وزارت صحت کی جانب سے آخری وارننگ جاری کردی گئی، مزید کسی خلاف ورزی پر ٹور بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے، اسکواڈکو اب نئے سرے سے آئسولیشن کا 14روزہ دورانیہ پورا کرنا ہوگا
دوسری جانب ﻗﻮﻣﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﻧﺎ ﺍﯾﺲ ﺍﻭ ﭘﯿﺰ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺳﺰﺍ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ بھی ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ. ﮐﯿﻮﯼ ﺑﺮﺍﮈ ﮐﺎﺳﭩﺮ ﮐﺮﺱ ﻟﻨﭻ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺍﺋﺴﭧ ﭼﺮﭺ ﮐﮯ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﻧﺎ ﭘﺮﻭﭨﻮﮐﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﭘﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ کرکٹ ﭨﯿﻢ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ
ﻟﻨﭻ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﺁﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮨﮯ، ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﯾﺰ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﮑﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻗﺮﻧﻄﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﺍﮐﺰ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﺑﮏ ﮨﯿﮟ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﻨﯽ ﭼﺎہیے، ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﻈﻢ ﻗﺮﻧﻄﯿﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺮﻭﻧﺎ ﻭﺍﺋﺮﺱ ﻧﮯ ﻗﺪﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ، ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻭﺑﺎﺋﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﯾﭩﺮﻥ ﭨﮑﭧ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﮐﺎﺭﮔﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﺭﯾﮉﯾﻮ ﺑﺮﺍﮈ ﮐﺎﺳﭩﺮ ﮈﺍﺭﺳﯽ ﻭﺍﻟﮉﮔﺮﯾﻮ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﯿﻢ ﮐﻮ ’ﮔﮭﻤﻨﮉﯼ‘ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﯿﻢ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩے کر ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﮮ،ﻭﺍﻟﮉﮔﺮﯾﻮ ﮐﺎ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﺋﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺮﺣﺪ ﭘﺮ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻭﭨﺎﮔﻮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮧ ﺻﺤﺖ ﻋﺎﻣﮧ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻧﮏ ﻭﻟﺴﻦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﺎ ﺑﺎﺭﮈﺭ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﻮﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﻟﺴﻦ ﻧﮯ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﻮ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭨﺮﯾﻔﮏ ﻻﺋﭩﺲ ﺳﺴﭩﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺭﯾﮉ ﺯﻭﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ، ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻄﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺳﺨﺖ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ۔