انقلاب زندہ باد

حفیظ بلوچ

یہ دو ہزار دو کی بات ہے، جب میں نے پہلی دفعہ لالہ یوسف مستی خان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا، ان کی باتیں سنیں۔ یہ نہیں تھا کہ ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے یا ان کی سیاست کے بارے میں نہیں پتہ تھا، مگر اسے اپنے گاؤں میں اپنے سامنے پہلی بار اس دن دیکھا، تو وہ احساس اس جاننے سے بہت مختلف تھا۔۔

ایک وجیہہ خوبصورت انسان، بارعب چہرہ اور گہری مسکراتی آنکھیں۔۔ ہمارے گاؤں کے ناکو چاکر ھوٹل کی چارپائی پر بیٹھ کر سب سے باتیں کرتا شخص، مجھے کسی ہیرو کی طرح لگا۔ ان کے ساتھ ملیر کی نامور ہستی سیٹھ عمر موجود تھے۔ میں نے چپ چاپ بس ایک عام انسان کی طرح ان کی باتیں سنیں، وہ جب تک وہاں تھے، میں وہیں ان کے پیچھے کھڑا رہا۔

الیکشن ہوئے، سنا کہ کامریڈ یوسف جیت نہ سکے ـ مجھے نہ ان کا الیکشن میں حصہ لینا اس وقت اہم لگا، نہ اس کا نہ جیتنا۔۔ ہاں چونکہ کامریڈ کا تعلق لیفٹ سے تھا تو یہ امید ضرور تھی کہ یہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ہے، شاید آگے چل کر کل کا روشن چہرہ بن کے سامنے آئےـ امید یہ تھی کہ اب کامریڈ یوسف یا اس کی پارٹی آئے گی گراؤنڈ سطح تک ان کا منشور ان کے کیڈر ان کے نعرے سننے کو ملیں گے اور جب یہ کارواں آئے گا تو ہم بھی اس کارواں کا حصہ ہوں گے۔۔ مگر ہم صرف انتظار کرتے رہے کارواں کو نہ آنا تھا، نہ آیا۔۔ وقت گزرتا گیا اور ایک دن ہم بھول بھال گئےـ

وہ دو ہزار دو کا وقت تھا، ہمیں سیاست سے کنارہ کش ہوئے برسوں ہو چکے تھے۔ بی ایس او جیسی منظم تنظیم سے فارغ ہونے کے بعد بہت کوشش کی کہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو کر اپنے سیاسی وژن کو عمل کی بھٹی میں جھونک دیں، مگر تمام پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں میں شخصیت پرستی کے سوا کچھ نہ تھا، اور نہ ہی قوم پرست جماعتوں نے متاثر کیا۔ لیفٹ تنظیمیں اس وقت کوما میں تھیں اور مذہبی فرقہ پرستی کی طرح ہر کوئی اپنے ڈیڑھ اینٹ کے مسجد میں قید تھاـ

سچ تو یہ ہے کہ اس ریاست کے اس استحصالی نظام سے ہمیں کوئی امید نہیں تھی، اور نہ اب ہے ـ اس پارلیمانی نظام میں سوائے لوٹ کھسوٹ کے اور بوٹ کی غلامی کے کچھ نہیں ـ اس لیئے پارلیمانی سیاست سے وابستہ جماعتیں نہ پہلے میرے لیئے کشش رکھتی تھیں، نہ آج رکھتی ہیں۔

یہ نہیں تھا کہ ہم نے کوشش نہیں کی، اپنے علاقے اور ملیر کی بہتری کے لیئے ہماری یا ہمارے چند دوستوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ پیپلزپارٹی کے سامنے اور پارٹیاں نچلی سطح تک کام کریں، کم سے کم سیاسی مقابلے کا رحجان ہو اور لوگوں کو انتخاب کرنے میں دقت نہ ہو۔ اس کے لیئے ہم دوستوں نے سندھی اور بلوچ نیشنلسٹ پارٹیوں سمیت کراچی میں موجود دوسری پارٹیوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، جس میں پیپلزپارٹی، فنکشنل لیگ کے اس وقت کے پیر پگارا سے ملاقات، جیئے سندھ کے کامریڈوں سے ملاقات جن کے نام میں بھول گیا ہوں۔ (یہ میری نالائقی ہے) بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ، ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن خالق بلوچ سے ملاقاتیں شامل ہیں۔ نیشنل پارٹی میں ہمارے ملیر کے دوست شامل تھے آج بھی ہوں گے مگر وہ سب شخصی حد تک ہیں اس لیئے شاید ہمارا نیشنل پارٹی سے رابطہ نہ ہو سکا ـ ہماری یہ کوششیں 1994 سے 1998 تک جاری رہیں اور ہم تھک کر ایک سائیڈ پر ہو گئے۔

ان ساری ملاقاتوں میں ہمیں یہ بات سمجھ میں آ چکی تھی کہ سیاست کے لیئے اسٹیٹس ضروری ہے۔ مال و دولت کے بغیر کوئی نہیں سنتا۔ خاص طور پر ہم جیسے عام انسانوں کی کوئی سنے یا مانے، یہ ناممکن تھاـ اگر اس وقت ہمیں حقیقی معنوں میں کامریڈ یوسف مستی خان کا ساتھ میسر آتا تو شاید ہم ان کے ساتھ جڑ کر عملی سیاست کا حصہ ہوتے، مگر ایسا اُس وقت ہو نہ سکا۔ ابھی وقت کا پھیر باقی تھا، ہمیں ان تک اور انہیں ہم تک پہنچنے میں کئی سال درکار تھے۔

دوسری بار جب میں نے کامریڈ کو دیکھا تو ان کے پاس گیا، ان سے گلے ملا ل۔ یہ سال 2011ع تھا، یعنی پورے نو سال بعد۔۔ اس عرصے میں دنیا تبدیل ہو چکی تھی، سوشل میڈیا کا دور شروع ہو چکا تھا، اور ہم سماجی کاموں میں حصہ لینے کے ساتھ سوشل میڈیا میں بھی سرگرم تھے، رابطے بڑھ رہے تھے ـ ہم بھی، بقول لوگوں کے، تھوڑا بہت ’فیسبکی دانشور‘ بن چکے تھے اور اس کی قیمت بھی ہمیں چکانی پڑی۔ جب دو ہزار گیارہ میں ہمارے گھر میں ایجنسیز نے ریڈ کیا اور میرے چھوٹے بھائی کو اٹھا کر لے گئےـ وہ تو میرے بڑے بھائی اسماعیل بلوچ تھے، جنہوں نے بھاگ دوڑ کرکے اپنے تعلقات استعمال کر کے انہیں بازیاب کرا دیا۔ اس وقت بےسر و سامانی اور بےبسی میں اسماعیل لالہ نہ ہوتے تو شاید چھوٹا کبھی واپس نہیں آتا۔ چھوٹا آیا، مگر ظالموں نے بہت سارے دہشت گردی کے کیسز لگا کر جیل بھیج دیاـ باقی کے آٹھ سال ہر مہینے ہم کورٹ کے چکر لگاتے رہے، تب جا کر وہ باعزت بری ہوا۔

بات ہو رہی تھی دو ہزار گیارہ میں لالہ سے ملاقات کی، تو میں کیس کے سلسلے میں سٹی کورٹ گیا ہوا تھا تو وہیں لالہ یوسف مستی خان کو دیکھ کر ان کے پاس گیا ـ جب لالہ کی نظریں مجھ پر پڑیں تو انہوں نے مجھے گلے لگایا۔۔ ایسے جیسے کوئی بہت جان پہچان والے کسی اپنے سے ملتا ہو ـ میرا حال احوال پوچھا، یہاں کیوں ہو، کیسے آئے۔۔ میں نے لالہ کو جواب دیئے تو کہنے لگے یہ ریاست بےرحم ہے، مگر فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گاـ

چھوٹے بھائی کے لیئے وکیل ایڈوکیٹ شوکت حیات تھے۔ اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا مگر اُس دن پتہ چلا کہ شوکت حیات لالہ کے پرانے ساتھی اور کامریڈ ہےلیں۔ وہ بھی اس لمحے جب شوکت حیات نے لالہ کو دور سے دیکھ کر نعرہ لگایا اور آ کر لالہ سے گلے ملے ـ وہ دونوں پرانی باتیں کرنے لگے اور میں انہیں سن رہا تھاـ ان کے ساتھ ایڈوکیٹ جمیل بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی لالہ یوسف کے ساتھی اور کامریڈ ہیں ـ کامریڈ جمیل آج ہمارے ساتھی ہیں ـ شاید انہیں بھی وہ وقت یاد نہیں

ہم وہیں کھڑے تھے تو کچھ اور وکلا لالہ کو دیکھ کر ان کے پاس آئے، باتیں ہوئیں، ہنسی مذاق بھی۔ جب وہ جانے لگے تو وکلا نے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے ـ بہت سالوں بعد میں نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا

میں لالہ کو دیکھ رہا تھا اور دیکھے جا رہا تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ آگے ہم دونوں کے لیئے ایک سفر منتظر تھا، جس میں مجھے اور لالہ کو قدم سے قدم ملا کر چلنا تھا ـ لالہ کو میری سیاسی تربیت کرنی تھی اور یوسف مستی خان کو ’سر‘ ۔ ’سر‘ سے ’کامریڈ‘ ۔ ’کامریڈ‘ سے ’لالہ‘ اور ’لالہ‘ سے ’بابا‘ بننا تھا اور مجھے بس حفیظ جان۔۔ ان کا ایک عام ساتھی کارکن۔۔

یہ اعزاز مجھے مرتے دن تک رہے گا کہ میں لالہ کے ساتھ چلا۔۔ ایک عرصے تک چلا، دس سال اں کے ساتھ ہم قدم رہا۔۔ انقلاب زندہ باد ۔۔ انقلاب زندہ باد۔۔انقلاب زندہ باد۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close