عالمی بینک کے مطابق حالیہ سیلابوں کی وجہ سے پاکستان میں اٹھاون سے نوے لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ ماہرین اور سیاستدانوں کے خیال میں حکومت چاہے تو مزید لوگوں کو غربت کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔ لیکن بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے
اس ضمن میں عالمی بینک کی 6 اکتوبر کو ایک رپورٹ جاری کی گئی، جس کا عنوان ”پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ 2022 ” ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022ع میں پاکستان میں شرح نمو دو فی صد رہے گی، جو سال 2024ع میں 3.2 فیصد ہو جائے گی۔ جبکہ مہنگائی کی شرح میں ممکنہ طور پر 23 فی صد تک پہنچ سکتی ہے
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر 2022ع میں تجارتی خسارہ اپنی بلند ترین سطح پر تقریباً 44.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خسارہ مزید بڑھے گا کیونکہ پاکستان میں نو ملین ہیکٹرز سے زیادہ زرعی رقبہ سیلابوں کی وجہ سے برباد ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے چاول، گندم، کپاس اور کئی دوسری فصلوں کی درآمدات بڑھیں گی۔ جبکہ حکومتی سطح پر زراعت کی بحالی کی کوششیں بھی ’پانی کے از خود اترنے کے انتظار‘ تک ہی محدود ہیں
بیشتر ماہرین نے اس رپورٹ کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے جبکہ کچھ نے اس میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ کراچی میں مقیم معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک نے غربت کے حوالے سے اعداد و شمار کا تخمینہ کم لگایا ہے
وہ کہتی ہیں ”میرا خیال ہے کہ غربت ورلڈ بینک کے اندازے سے بہت زیادہ بڑھے گی۔ ممکنہ طور پر 20 ملین کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کو حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں“
نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟
پاکستان میں سیلاب سے نقصانات کے اندازے کے حوالے سے مختلف تخمینے آئے ہیں۔ حکومت نے ابتدائی طور پر اس نقصان کا تخمینہ دس بلین ڈالرز، پھر اٹھارہ بلین ڈالرز، پھر تیس بلین اور ستمبر میں چالیس بلین ڈالر لگایا۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ ورلڈ بینک نے یہ تخمینہ چالیس بلین ڈالر لگایا ہے، لیکن اس ضمن میں ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں ہے
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ برسرِ اقتدار طبقہ اس طرح کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تاکہ نقصانات کے لئے زیادہ سے زیادہ معاوضے کا مطالبہ کیا جائے
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ چالیس بلین ڈالرز کا تخمینہ بہت بڑا ہے اور یہ حقیقت پسندانہ نہیں۔ تاہم وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ کوئی ان اعداد وشمار کو بڑھا چڑھا سکتا ہے
ان کے مطابق ”ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں نے نقصانات کا اندازہ تباہی سے لگایا ہوگا۔ یعنی یہ کہ فصلیں کتنی تباہ ہوئی ہیں، جانور کتنے ہلاک ہوئے ہیں، کتنی سڑکیں، گھر، عمارات، پل اور دیگر چیزیں منہدم ہوئیں یا پھر ان کو نقصان پہنچا۔ پھر ان کی قیمتوں کا اندازہ لگایا گیا ہوگا۔ تو اس طرح انہوں نے نقصان کا تخمینہ لگایا ہوگا“
کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی چار کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کو غربت کے درجے میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے
وہ کہتے ہیں ”میرے خیال میں اگر سڑکوں کی تعمیر، پلوں کی مرمت، اور دوسرے کام شروع کیے جائیں اور اس میں مقامی افراد کو روزگار مل جائے گا، تو ممکنہ طور پر لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے روکا جا سکتا ہے“
تاہم ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان دوسرے ممالک کی وجہ سے اس تباہی کا شکار ہوا ہے
خاتون ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا ”ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان قرضوں کی معافی کی بات کرے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ ہم قرضوں کی ادائیگی کو ایسی نوعیت کی سرمایہ کاری میں لگائیں، جس سے کم از کم کاربن کا اخراج ہو۔ میں اس تجویز کی تائید کرتی ہوں“