پچھلے دو ڈھائی عشروں سے طالبان کا نام افغانستان میں موجود ایک تنظیم سے منسلک ہو گیا ہے، مگر یہ طالبان اور طالب کے الفاظ صدیوں سے پشتون علاقوں میں موجود ہیں، البتہ ان کا مطلب موجودہ طالبان سے بہت مختلف تھا۔ اس تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ پشتون علاقوں میں روایتی طالبان کون اور کیا تھے۔
پورے پختون خطے کے دور دراز علاقوں جن میں خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقوں سمیت افغانستان کے مختلف ریاستوں سے طالبان کی بڑی تعداد موجودہ خیبر پختونخوا اور سابقہ صوبہ سرحد میں قائم ان بڑے مدارس کا رخ کرتی تھی جہاں درس قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث فقہ اور صرف و نحو وغیرہ پڑھانے کا ایک مستقل منظم اور باقاعدہ اہتمام ہوتا۔
اگر میں اپنے بنیادی مشاہدے کو مدنظر رکھ کر بات کروں تو پختون خطے میں مدارس کی روایتی تہذیب طالبان کی بود و باش ان کی نفسیات اور مقامی باشندوں کا رویہ ہی میرا موضوع ہوں گے۔
ماضی میں پختونخوا کے مختلف مدارس میں آتے طالبان چونکہ مسافر اور اجنبی ہونے کے ساتھ ساتھ قران پاک اور دینی علوم کے حصول کے لیے بھی آتے اس لیے پختون معاشرے کے فطری مزاج اور جینیاتی خد و خال کے نہ صرف قریب تر ہوتے بلکہ ان کے لیے حد درجہ قابل قبول بھی بنے رہتے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں طویل تاریخ بھی کسی تلخی کی گواہی پیش کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ مہمان نوازی ہمدردی اور احترام کے ایک قابل فخر سلسلے سے جڑی بھی دکھائی دیتی ہے۔
یہ طالبان صرف مدرسوں میں قیام پذیر نہ ہوتے بلکہ گاؤں کے مختلف مساجد میں قیام کے ساتھ ساتھ بعض طالبان کو مقامی لوگ اپنے اپنے ڈیروں پر بھی ٹھہراتے اور ان کی خدمت بھی کرتے جس کی وجہ سے ان کے درمیان اعتماد اور محبت کا ایک گہرا رشتہ بھی پروان چڑھ جاتا۔ گویا طالبان گاوں کے اجتماعی مہمان ہی ہوتے۔
یہ طالبان تقریبا سال بھر مدرسے میں حصول علم کے بعد سند (سرٹیفکیٹ) لے کر فارغ ہوتے اور اپنے علاقوں کو لوٹنے لگتے تو میزبانوں اور مہمانوں کے درمیان جذباتی مناظر دیکھنے میں آتے۔ لیکن یہ سلسلہ بعد میں عموما خط و کتابت کے ذریعے بھی جاری رہتا۔
طالبان عمومی طور پر سماجی معاملات سے دور رہتے کیونکہ دن کو وہ درس حاصل کرنے میں مصروف ہوتے اور رات کو وہ مطالعہ کرتے۔
ان طالبان کو انتظامی طور پر مختلف مساجد میں نگرانی کرنے کے لیے امیر بھی مقرر کیا جاتا جو مدرسے کے مہتمم یا شیخ کو ہر طالب کے بارے میں باقاعدہ طور پر رپورٹ بھی دیتا ریتا۔
شام کے بعد ہر مسجد میں حاضری اور رات کو ان کا مطالعہ چیک کرنا بھی امیر کے فرائض میں شامل ہوتا۔
گویا مطالعہ اور نظم و ضبط اولین ترجیح ہوتے اور اس کی سختی کے ساتھ پابندی بھی کی جاتی جس کے لیے امیر سے مہتمم تک ایک فعال مکینزم موجود تھا۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طالبان کو زندگی کے دوسرے معاملات سے کاٹ دیا جاتا بلکہ بعض اوقات تو قدرے لبرل یا کھلی ڈھلی فضا بھی دیکھنے کو ملتی رہتی۔
مثلا عام طور پر جمعے کی رات (جب دوسرے دن چھٹی ہوتی) طالبان مشترکہ طور پر تفریحی سر گرمیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے۔ کبھی کبھی روایتی اجتماعی رقص (جسے پشتو میں اتنڑ ڈالنا کہتے ہیں ) کا مظاہرہ بھی کرتے۔
کھبی ثوبت‘ کا انتظام کیا جاتا جس میں کوئی طالب اپنے علاقے کا مخصوص لیکن حد درجہ خوش ذائقہ حلوہ پکاتا اور پھر نہ صرف مسجد میں رہائش پذیر طالبان اس دعوت میں شریک ہوتے بلکہ بعض مقامی لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی۔
اسی طرح درس کے دوران ان کا استاد عالم دین وقفہ (جسے مدرسے کی کلچر میں تفریح کہا جاتا) کرتے تو طالبان دریا کے کنارے یا کسی کھلے میدان کی طرف بھاگتے اور کھیل کود کے ذریعے خود کو تازہ دم کردیتے۔
ایک مخصوص کشتی جو ایک ٹانگ ہاتھ میں پکڑ کر صرف ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ سے لڑی جاتی ہے (اس کشتی کو طالبان پشتو میں ’سخے‘ کہتے) ان کا پسندیدہ کھیل ہوتا۔ اسے دیکھنے کے لیے مقامی لوگ بھی بڑی تعداد میں جمع ہوتے۔
سرما کی آمد اور مکئی کی فصل بڑھنے کے دنوں میں جب گاؤں والے چوریوں کے پیش نظر نوجوانوں کے ذریعے رضاکارانہ طور پر چوکیداری نظام ترتیب دیتے تو اپنے استاد (عالم دین) کے حکم پر طالبان بھی گاؤں والوں کی مدد کو آتے۔ جس سے تحفظ کا احساس مزید بڑھتا۔
طالبان عام طور پر مالی پریشانیوں سے بے فکر رہتے کیونکہ ان کے کھانے پینے اور رہائش وغیرہ کا انتظام مقامی لوگ رضاکارانہ طور پر خود کرتے لیکن بعض اوقات وہ یعنی طالبان خود بھی اپنی ضرورتوں کی خاطرچند دنوں کےلیے محنت مزدوری کرتے رہتے۔
اس زمانے میں چونکہ افیون کی کاشت پر پابندی نہیں تھی اس لیے فصل تیار ہوتی تو طالبان کی شدید ضرورت پیش آتی کیونکہ اپنے علاقائی پس منظر کے سبب یہ ان کی مہارت ہوتی کہ وہ افیون کی بالائی لیکن اصل سطح (جسے پشتو میں ڈوڈہ کہتے ہیں) کو بلیڈ لگی انگلی کے برابر اس لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو نہ صرف بنانے کے ماہر ہوتے جس کے ذریعے ڈوڈہ پر کٹ لگایا جاتا بلکہ وہ ڈوڈہ کاٹنے کا مخصوص ہنر بھی بخوبی جانتے
اس سے دودھ کی مانند مائع نکلتا اور دوسرے دن علی الصبح سورج نکلنے سے پہلے لوہے کی ایک پلیٹ میں ایک ایک پودے سے اس مائع کو جمع کیا جاتا، جو بعد میں بہت مہنگا بکتا
اس کام سے طالبان کی اچھی خاصی مزدوری نکل آتی اور اس سے وہ اپنی سال بھر کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتے۔ تاہم بعد میں افیون کی کاشت پر پابندی لگی اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا
اس کے علاوہ بعض طالبان عطر، ٹوپیاں، تسبیح، مسواک اور کتابوں کے سٹال بھی مدرسے کے آس پاس لگاتے رہتے۔ اس سے وہ نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرتے بلکہ اپنے خاندان کو کچھ رقم بھی بھجواتے۔
یہ سلسلہ یعنی مدرسے میں دور افتادہ علاقوں سے طالبان کی آمد حصول علم کا جذبہ اور مقامی باشندوں کا مثبت رویہ زمانوں پر محیط تھا جس نے ایک ہموار فضا اور پر سکون ماحول کو ایک رومانوی آسودگی کے ساتھ تشکیل دیا تھا۔
یہ یہی جنون سے نابلد اور احترام کا درس دیتے مذہبیت کی ایک پر امن مٹھاس میں گوندھی ہوئی وہ تہذیب تھی جس نے اجنبی بستیوں اور ان کے مکینوں کے ہاں نہ صرف باہر سے آئے طالبان کو ایک بے ضرر اور قابل قبول حیثیت عطا کر دی تھی بلکہ اجنبیت اور مسافری کے سبب طالب کو پشتو شاعری کا ایک رومانوی استعارہ بھی بنا ڈالا، جو آگے چل کر پشتو کے لا زوال لوک گیتوں اور ٹپوں کا موضوع بھی بنا۔
مثلا ایک پشتو لوک گیت:
تورہ طالبہ ناجوڑہ یمہ
بیگاہ مے ستا د غمہ ڈیئر ژڑلی دی نہ
ناجوڑہ یمہ
ترجمہ: اے سانولے رنگ کے طالب / کل رات تمھارے غم میں اتنا روئی ہوں / کہ بیمار پڑ گئی ہوں
یا یہ ٹپہ ملاحظہ ہو:
طالبہ خاورے بہ ملا شے
پہ کتاب پروت ئے یادوے شینکی خالونہ
ترجمہ: اے طالب، تو خاک مولوی بنے گا
جب کتاب پر جھکے ہوئے سبز رنگ کے ’تلوں‘ کو یاد کر رہے ہو
یاد رہے کہ پختونخوا بمع افغانستان کی خواتین چہرے پر مصنوعی تل بناتیں جس کا رنگ سیاہ کی بجائے سبز ہوتا۔
ویسے کون بدبخت پنجابی ماہیے اور پشتو ٹپوں کی شاعرانہ نزاکت اور فطری بہاؤ کی داد دینے میں بخیل ہوگا؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اپنی غیر متنازع طرز عمل دینی تشخص اور مسافرانہ پس منظر کے سبب سماجی زندگی اجتماعی قومی نفسیات اور شعر و ادب تک میں ایک مثبت حوالہ بن کر موجود رہے۔
افغان ’جہاد‘ سے پہلے طالبان کے ہاتھ میں کبھی معمولی سا اسلحہ بھی نظر نہیں آتا تھا حالانکہ ان کا بنیادی تعلق بھی عموما ان پسماندہ اور روایتی پختون علاقوں سے ہوتا جہاں دشمنی اور اسلحہ بہت عام ہوتے لیکن یہ ماضی میں طالبان تہذیب اور مدرسے کی پر سکون فضا ہی تھی جس نے انہیں اسلحے کی بجائے علم اور کتاب کی طرف موڑ دیا تھا۔
طالبان مدرسے اور مقامی باشندوں کا یہ پر امن اور پر سکون دینی سلسلہ سینکڑوں سالوں سے پختون خطے اور سماج کا ایک شناسا اور قابل قبول جز تھا لیکن۔۔۔
80 کے عشرے میں افغان ’جہاد‘ نے معروضی حالات کے پیش نظر اس بے ضرر اور رومان پرور تہذیب کو اپنے فطری دھارے سے الگ کر کے بندوق اور جنگ کی طرف موڑ دیا جس سے بعد میں عصبیت، جنون اور دہشت نے جنم لیا۔
کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر سر دست اس وسیع موضوع پر بحث ممکن نہیں، لیکن ایک سوال ذہن پر پیہم دستک دے رہا ہے کہ کیا یہ واقعی یہ وہی طالبان ہیں جن سے رغبت اور شناسائی کا ایک طویل اور رومان بھرا سلسلہ جڑا ہے اور جن کی موجودگی سے ہماری روحانی آسودگی تحفظ کے احساس اور مہمان نوازی کے جذبے میں ایک خوش کن اضافہ بھی ہوتا رہتا۔
اور دور دیس بستیوں سے آتے مہمانوں کی آمد یہاں کی روایات اور سماجی زندگی کو اجتماعی حسن اور برکت بھی فراہم کرتے رہتے خوف اور دہشت ہرگز نہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو