حال ہی میں امریکہ کی معروف یونیورسٹی اسٹینفورڈ کی جانب سے دنیا کے دو فیصد محققین کی درجہ بندی پر مشتمل ایک سالانہ فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے تین ریسرچ سائنسدانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے
تفصیلات کے مطابق منتخب ہونے والے تین محققین میں سے ایک سوات یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے چیئرمین ڈاکٹر ثناءاللہ ہیں، جنہوں نے ’وائرلیس اینڈ سینسر نیٹ ورک‘ میں قریب پینتالیس مقالے لکھے ہیں اور جن کے چار ہزار حوالہ جات موجود ہیں
بہترین محققین کی صف میں شامل دیگر دو سائنسدان سوات کے دو بھائی ڈاکٹر عباس خان اور ڈاکٹر ذیشان ہیں
ڈاکٹر عباس اس وقت چین کی حنان یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے بائیو انفارمیٹیکس میں تحقیق کرکے ایک سو سے زائد مقالے شائع کیے ہیں
اسی طرح ان کے بھائی ڈاکٹر ذیشان نے معاشیات میں تحقیق کر کے پچاس مقالے شائع کیے ہیں، جنہیں دنیا بھر میں انتالیس ہزار حوالوں میں پیش کیا گیا ہے
دنیا کے بہترین محققین کی فہرست کے لیے منتخب ہونے والے ڈاکٹر ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ دراصل اسٹینفورڈ یونیورسٹی کا یہ انتخاب زیادہ مقالے شائع کرنے پر نہیں، بلکہ مقالوں کے معیار اور ان کے ’ایچ انڈیکس‘ کی قدر پر منحصر تھا
انہوں نے بتایا کہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی درجہ بندی میں ان کا نمبر ایک لاکھ ہچاسی ہزار پر ہے
نوجوان محقق تیس سالہ ذیشان خان، جو اس وقت ملائیشیا کی کرٹن یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہیں، بتاتے ہیں ”دو لاکھ میں سے ان کا نمبر ستر ہزار ہے، جبکہ اٹھائیس سالہ عباس خان کا نمبر ایک لاکھ اسی ہزار ہے“
واضح رہے کہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں قائم اسٹینفورڈ یونیورسٹی ایک نجی تدریسی و تحقیقی تعلیمی ادارہ ہے، جس کی بنیاد سابق امریکی سینیٹر اور کیلیفورنیا کے گورنر لی لینڈ اسٹینفورڈ او ر ان کی اہلیہ جین اسٹینفورڈ نے 1885ع میں اپنے اکلوتے بیٹے کی یاد میں رکھی تھی، جو پندرہ سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ سے چل بسا تھا
یہ یونیورسٹی عالمی سطح پر دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ جہاں سے مختلف شعبہ جات میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی کئی شخصیات تعلیم حاصل کر کے دنیا میں اپنا نام اوع مقام پیدا کر چکی ہیں۔ امریکی میگزین ’سلیٹ‘ نے 2014ع میں اس ادارے کو اکیسویں صدی کا ہارورڈ بھی کہا تھا
ڈاکٹر ذیشان کہتے ہیں ”یہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ اسٹینفورڈ جیسے ادارے کی جانب سے میرے کام کو تسلیم کیا گیا“
اس سوال پر کہ انہیں کس چیز نے تعلیم اور ریسرچ کی طرف اکسایا؟ ذیشان نے کہا ”آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ایف ایس سی تک میں ایک عام طالب علم تھا اور میں نے کبھی پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی۔ میرے گھریلو حالات ایسے تھے کہ کینٹین سے ایک بریانی کی پلیٹ خریدنا بھی میری استطاعت سے باہر تھا“
انہوں نے بتایا ”والدین کی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں، جبکہ حالات ایسے تھے کہ آگے پڑھنا دن بہ دن مشکل ہو رہا تھا۔ ان ہی دنوں ایک اسکالرشپ قابل طلبہ کو ملتی تھی، جسے حاصل کر کے اپنی فیس بھرنے کی لالچ نے مجھے پڑھنے اور اچھے نمبر حاصل کرنے پر اکسایا“
ذیشان خان کہتے ظیں ”دوران طالب علمی مجھے معلوم ہوا کہ سوات میں فوج کی جانب سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مباحثے کروائے جاتے ہیں، جن میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو نقد انعام دیا جاتا تھا۔ میں بحث مباحثوں کا گُر نہیں جانتا تھا، لیکن انعام جیتنے کی لگن نے اس قابل کیا کہ نسٹ اور لمز جیسے اداروں میں بھی نامور ڈیبیٹرز کو ہرایا، جس کا ریکارڈ موجود ہے“
انہوں نے بتایا کہ یہ بھی ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ اتنی کم عمر میں انہوں نے تقریباً پچیس پی ایچ ڈی اسکالرز کو ایک مقام تک پہنچایا
ذیشان خان کے ساتھ ہی دنیا کے بہترین محققین کی فہرست میں شامل ہونے والے ان کے بھائی اٹھائیس سالہ ڈاکٹر عباس خان بتاتے ہیں ”میں نے 2020ع میں کووڈ-19 پر ایک ریسرچ کی تھی، جس کا اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ فواد چوہدری نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ذکر کیا تھا“
انہوں نے بتایا ”میں اِس وقت ایک چینی میڈیسن یونیورسٹی میں سینیئر ریسرچ سائنسدان ہوں۔ کرونا کے آغاز میں اس وائرس پر میں نے ایک تحقیق کی کہ کس طرح میوٹیشن سے وائرس میں تبدیلی آتی ہے اور پھر یہ ویکسین پر اثرانداز ہوتا ہے۔ برطانیہ کے پہلے ویریئنٹ پر میرا جو مقالہ شائع ہوا، اسے ایک سال میں دو سو حوالوں میں لیا گیا، جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے“
دونوں بھائیوں نے اپنی فتح پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ماضی کے کٹھن وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ کیسے گھر اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے لوگوں کے کپڑے سلائی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک فیکٹری میں بھی کام کیا
انہوں نے بتایا ”آج ہمارے پاس سب کچھ ہے، پرکشش تنخواہ ہے، سوات میں گھر بنایا۔والدین کو حج کروایا، لہٰذا ہمارا تمام نوجوانوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ جب بھی اپنی قسمت بدلنے کا ارادہ کریں گے اور اس کے لیے تگ و دو کریں گے تو کامیابی ان کا مقدر بنے گی“