ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ محض ایک مسکراہٹ والا پوز آپ کے موڈ کو بہتر بنا سکتا ہے اور یہ کہ مسکرانے سے خوشی کا حصول ممکن ہے
ماہرین نفسیات طویل عرصے سے اس جستجو میں رہے ہیں کہ کیا چہرے کے تاثرات لوگوں کے جذباتی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اس خیال کو سائنسی لغت میں ’فیشل فیڈ بیک ہائپوتھیسس‘ کہتے ہیں
اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان نکولس کولز کی سربراہی میں محققین کے ایک بین الاقوامی ٹیم کو اس بات کے مضبوط ثبوت ملے ہیں کہ مسکراہٹ درحقیقت ہمیں زیادہ خوشی فراہم کر سکتی ہے
تاہم مطالعے میں پایا گیا کہ مسکراہٹ کا اثر ڈپریشن جیسی کچھ چیزوں پر قابو پانے کے لیے اتنا موثر نہیں ہے
مطالعے کے لیے محققین نے ایک منصوبہ بنایا، جس میں تین معروف تکنیکیں شامل تھیں، جن کا مقصد شرکا کو مسکراہٹ کی ترغیب دینا تھا
ایک تہائی شرکا سے کہا گیا کہ وہ ’پین اِن ماؤتھ‘ طریقے کا استعمال کریں اور ایک تہائی شرکا سے مسکراتے ہوئے اداکاروں کی تصاویر میں نظر آنے والے ان کے چہروں کے تاثرات کی نقل کرنے کو کہا گیا
آخری گروپ کو ہدایات دی گئیں کہ وہ اپنے ہونٹوں کے کونوں کو اپنے کانوں کی طرف لے جائیں اور اپنے گالوں کو اپنے چہرے کے پٹھوں کا استعمال کرتے ہوئے پھیلائیں
ہر گروپ میں آدھے شرکا نے کتے، بلی کے بچوں، پھولوں اور آتش بازی کی خوشگوار تصاویر کو دیکھتے ہوئے یہ کام انجام دیا اور باقیوں نے صرف ایک خالی اسکرین دیکھی
شرکا کو اپنے چہرے پر فطری ردعمل رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں اسی قسم کی تصاویر یا اس طرح کی کچھ کم تصویریں دکھائی گئیں
مطالعے کے مقصد کو چھپانے کے لیے محققین نے کئی دوسرے چھوٹے موٹے جسمانی کاموں کو شامل کیا اور شرکا سے ریاضی کے کچھ آسان سوال حل کرنے کو کہا
ہر ٹاسک کے بعد شرکا نے درجہ بندی کی کہ وہ کتنا خوش محسوس کر رہے ہیں
مسکراہٹوں کے اس مطالعے میں 19 ممالک کے تین ہزار 878 شرکا سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا
اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد محققین کا کہنا تھا کہ شرکا نے مسکراتے ہوئے تصویروں کی نقل کرنے یا کانوں کی طرف منہ کھینچنے سے خوشی میں نمایاں اضافہ محسوس کیا
لیکن 2016 کے ایک اسٹڈی گروپ کی طرح شرکا کو ’پین اِن ماؤتھ‘ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنے موڈ میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی
ڈاکٹر نکولس کولز نے کہا ”مسکراہٹ بکھیرنا لوگوں کو خوشی کا احساس دلا سکتا ہے اور ماتھے پر بَل لوگوں کو ناراض کر سکتے ہیں۔ اس طرح جذبات کا شعوری تجربہ کم از کم جزوی طور پر جسمانی احساسات پر مبنی ہوتا ہے“
ان کے بقول ”گذشتہ چند سالوں میں سائنس نے ایک قدم پیچھے اور چند قدم آگے بڑھائے ہیں۔ لیکن اب ہم انسانی حالت کے ایک بنیادی حصے کو سمجھنے میں پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں اور یہ انسانی جذبات ہیں۔‘
نکولس کولز کا کہنا ہے ”یہ تحقیق ہمیں بنیادی طور پر اہم چیز بتاتی ہے کہ یہ جذباتی رویے کیسے کام کرتے ہیں“
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مطالعہ مفید معلومات فراہم کرتا ہے کہ جذبات کیا ہیں اور وہ کہاں سے آتے ہیں
ڈاکٹر کولز کہتے ہیں”ہم جذبات کا تجربہ اتنی کثرت سے کرتے ہیں کہ ہم حیران ہونا بھول جاتے ہیں کہ یہ صلاحیت کتنی ناقابل یقین ہے۔ لیکن جذبات کے بغیر انسانی حالت میں کوئی درد یا خوشی، کوئی تکلیف یا خوشی اور کوئی المیہ اور شان و شوکت ممکن نہیں ہے۔ یہ تحقیق ہمیں بنیادی طور پر کچھ اہم باتیں بتاتی ہے کہ یہ جذباتی تجربہ کیسے کام کرتا ہے“
ان نتائج کے باوجود ماہرین نفسیات ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ انسانی جسم اس طرح کیوں کام کرتا ہے
لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جذبات کا ہمارا شعوری تجربہ جسم میں موجود احساسات پر مبنی ہوتا ہے، مثال کے طور پر دل کی تیز دھڑکن کا احساس کچھ ایسے تاثرات قائم کرتا ہے، جسے ہم خوف کے طور پر بیان کرتے ہیں
چہرے کے تاثرات کو اکثر اس نظریے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن کچھ حالیہ تجربات نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں
یہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیچر ہیومن بی ہیویئر‘ میں شائع ہوئی ہے۔