امریکی فوجی نے چالاکی سے کس طرح افغان بچی کو اغوا کیا؟

ویب ڈیسک

گذشتہ سال امریکی فوج کی واپسی کے ساتھ ہی افغانستان میں افراتفری کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ان حالات میں ایک نوجوان افغان جوڑا ایک کم عمر بچی کو اٹھائے دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کی طرف بھاگا

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ وہی بچی تھی، جس کو دو سال پہلے امریکی چھاپے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملبے سے بچا لیا گیا تھا۔ اس امریکی کارروائی میں بچے کے والدین اور بہن بھائی مارے گئے

کئی ماہ تک امریکی فوجی ہسپتال میں رہنے کے بعد یہ بچی اپنے کزن اور ان کی اہلیہ کے ساتھ رہنے لگی، جنہوں نے حال ہی میں شادی کی تھی۔ اب اس خاندان کو بچی کے مزید علاج کے لیے امریکی میرین کور کے اٹارنی جوشوا ماسٹ کی معاونت سے امریکہ جانا تھا

گذشتہ ماہ دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق اگست 2021ع کے آخر میں جب یہ تھکے ہارے افغان شہری واشنگٹن ڈی سی کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو جوشوا ماسٹ نے انہیں بین الاقوامی آمد کی قطار سے باہر نکالا اور معائنہ کرنے والے افسر کے پاس لے جایا گیا

اس جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ لوگ اس وقت حیران رہ گئے، جب ماسٹ نے بچی کا افغان پاسپورٹ دکھایا لیکن یہ پاسپورٹ پر درج نام کا آخری حصہ تھا، جسے دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ نام ماسٹ کا تھا!

انہیں اس کا علم تک نہیں تھا، لیکن انہیں جلد ہی بچی سے محروم ہونا ہوگا

یہ ایک ایسی المناک کہانی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک امریکی میرین افغان جنگ کی ایک یتیم بچی کو امریکہ لانے کے لیے پرعزم ہو گئے اور اسے بچانے کے عمل کو مسیحی عقیدے کے طور پر سراہا

وفاقی سطح پر جمع کرائے گئے خطوط، ای میلز اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی میرین نے امریکی مسلح افواج میں اپنی حیثیت کا استعمال کیا

انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے اپیل کی اور بچے کو گود لینے کے لیے چھوٹے قصبے کی عدالتوں کا رخ کیا۔ سات ہزار میل دور بچی کی پرورش کرنے والے افغان جوڑے کو اس بات کا علم تک نہیں تھا

چھوٹی بچی جو اب ساڑھے تین سال کی ہے، کم از کم چار عدالتی مقدمات کا مرکزی کردار ہے

افغان جوڑا اسے واپس لینے کے لیے بے چین ہے۔ جوڑے نے ماسٹ اور ان کی اہلیہ اسٹیفنی ماسٹ پر مقدمہ کر دیا ہے، لیکن ماسٹ خاندان کا اصرار ہے کہ وہ بچی کے قانونی والدین ہیں اور انہوں نے اس کی ’حفاظت‘ کے لیے ’قابل تعریف‘ کام کیا۔ انہوں نے ایک وفاقی جج سے مقدمہ خارج کرنے کی اپیل کی ہے

اس تنازعے نے امریکی محکمہ دفاع، انصاف اور خارجہ کو ملوث کر دیا ہے، جنہوں نے دلیل دی ہے کہ کسی دوسرے ملک کے شہری کو اپنانے کی کوشش فوجی اور خارجہ تعلقات کو نمایاں نقصان پہنچا سکتی ہے

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک بچی، جو پرتشدد امریکی حملے سے بچ گئی، مہینوں تک ہسپتال میں داخل رہی اور افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد محفوظ رہی، اسے اپنی مختصر زندگی کو دو خاندانوں کے درمیان تقسیم کرنا پڑ رہا ہے، جو دونوں اب اس کے وارث ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ جن میں سے ایک چالاک امریکی خاندان ہے۔

افغان جوڑے کی امریکہ آمد کے پانچ دن بعد ماسٹ، جن کے ہاتھ میں بچی کو تحویل میں لینے کے کاغذات تھے، وہ بچی کو لے گئے

اس سے پہلے افغان خاتون زمین پر گر گئیں اور امریکی میرین جوشوا ماسٹ سے التجا کی وہ بچی واپس دے دیں۔ ان کے خاوند کا کہنا تھا کہ ماسٹ انہیں کئی ماہ تک بھائی کہتے رہے

اس لیے انہوں نے ماسٹ سے درخواست کی کہ بھائی جیسا ہمدردانہ رویہ اختیار کریں۔ اس کے باجود کہ افغان خاندان کا دعویٰ عدالت میں زیر سماعت ہے، ماسٹ نے افغان شہری کو پیچھے دھکیل دیا اور پاؤں زمین پر مارا اور اب دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا کہ جب سے افغان جوڑے نے بچی کو نہیں دیکھا

افغان خاتون نے اے پی کو بتایا ’ان کے بچی کو لے جانے کے بعد سے ہمارے آنسو کبھی نہیں رکے۔ اس وقت ہم محض لاشیں ہیں۔ ہمارا دل ٹوٹ چکا ہے۔ ہمارا بچی کے بغیر مستقبل کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ خوراک بے مزا لگتی ہے اور سونے سے آرام نہیں ملتا۔‘

بچی کی کہانی عدالتوں میں جمع کروائی گئی ان سینکڑوں دستاویزات جو معلومات کی آزادی کے قانون کے تحت حاصل کی گئیں اور متعلقہ افراد کے انٹرویوز سے کھلتی ہے۔ اے پی نے چھان بین کے دوران کڑی کے ساتھ کڑی ملائی

ستمبر میں دائر کیے گئے ایک وفاقی مقدمے میں، افغان خاندان نے ماسٹ خاندان پر جعلی قید، سازش، دھوکہ دہی اور حملے کا الزام لگایا۔ خاندان نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ افغانستان میں موجود اپنے رشتے داروں کے خدشات کے حوالے سے اس کی شناخت کو تحفظ فراہم کرے

دوسری جانب ماسٹ خاندان افغان خاندان کے دعووں کو اس کی ساکھ پر بے ہودہ اور غیر ضروری حملہ قرار دیتا ہے۔ عدالت میں داخل کی گئی دستاویزات میں خاندان کا استدلال ہے کہ انہوں نے بچی کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی نقصان سے بچایا ہے

ماسٹ کے خاندان نے اس بارے میں شک کو بڑھاوا دیا ہے کہ آیا افغان خاندان کا بچی کے ساتھ واقعی کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں

ماسٹ کے وکلا نے لکھا ہے کہ جوشوا اور اسٹیفنی ماسٹ نے بڑے ذاتی خرچے اور قربانی پر اتنا کیا کہ بچی کو وہ طبی نگہداشت مل سکے، جس کی اسے ضرورت ہے اور اسے پیارا گھر مل سکے

بچی کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے اور اسے صرف بے بی ’ایل‘ یا بے بے بی ’ڈو‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ افغان جوڑے نے بچی کو افغان نام جب کہ ماسٹ خاندان نے اسے امریکی نام دے رکھا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close