برطانیہ کی ایک عدالت نے شمالی انگلینڈ میں نوجوان لڑکیوں کو جنسی تعلقات کے لیے مجبور کرنے کے جرم میں ایک گینگ کے دو پاکستانیوں کی ملک بدری کے خلاف اپیل مسترد کر دی ہے
ایک امیگریشن ٹریبیونل کے فیصلے میں ججوں نے کہا کہ ملک بدری کے خلاف طویل قانونی جنگ لڑنے کے بعد اکیاون سالہ عادل خان اور باون سالہ قاری عبدالرؤف کو برطانیہ سے نکالنے کے فیصلے میں عوام کی بھلائی اور مفاد ہے
واضح رہے کہ برطانیہ کے علاقے روچڈیل میں کمسن لڑکیوں کو جنسی سرگرمیوں پر مجبور کرنے والا ایک گینگ موجود تھا۔ اس کے نو اراکین تھے، جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ انہیں 2012ع میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا تھا۔ اس گینگ کے ارکان کو کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور دیگر جرائم پر انیس سال تک کی سزا سنائی گئی تھی۔ جنسی سرگرمیوں میں ملوث کیے جانے والے بچوں کی عمریں سولہ سال سے کم تھیں۔ اس گینگ نے ایک تیرہ سال کی عمر کی برطانوی سفید فام لڑکی کو بھی نشانہ بنایا، اس کا بار بار ریپ کیا گیا۔ حتیٰ کہ یہ افراد جنسی تعلقات کے لیے اسے دوسرے مردوں کے پاس بھی منتقل کرتے رہے
یہ کیس آکسفورڈ سمیت دیگر برطانوی شہروں میں اسی طرح کے ’گرومنگ گینگز‘ کے ٹرائلز کی سیریز کا حصہ تھا
عاد خان اور عبدالرؤف دونوں پاکستانی شہری تھے اور انہوں نے نیچرلائزیشن کے ذریعے برطانوی شہریت حاصل کر لی تھی۔ انہیں بالآخر 2018ع میں ایک اور گینگ ممبر کے ساتھ برطانوی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا
ان ملزمان نے ایک طویل عرصے سے جاری ٹیسٹ کیس میں انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنی ملک بدری کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے نجی اور خاندانی زندگی کے حق کا حوالہ دیا اور اس حقیقت کا بھی کہ ان دونوں نے پاکستانی شہریت ترک کر دی تھی
ان دونوں افراد کو کئی سال پہلے، ان کی سزا کا ایک حصہ پورا کرنے کے بعد رہا کیا گیا تھا اور یہ مبینہ طور پر اپنے ہی متاثرین افراد کے قریب روچڈیل میں رہ رہے تھے
عادل خان، جس نے ایک تیرہ سالہ لڑکی کو حاملہ کیا، نے ٹریبیونل کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک ’رول ماڈل‘ بننا چاہتا ہے۔ اس کے اس بیان کے بعد ججوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اس شخص کو اپنے کیے ہوئے جرائم پر کوئی پچھتاوا نہیں اور نہ ہی اس نے پچھتاوا ظاہر کیا۔ پاکستانی شہری خان کا یہ بیان برطانیہ کے ججوں کے لیے شدید حیرت کا باعث بھی تھا۔