2100ع میں حیدرآباد ملک کا گرم ترین شہر ہوگا، اقوام متحدہ کا انتباہ

ویب ڈیسک

اقوام متحدہ کی رپورٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ 78 سال بعد سنہ 2100 میں سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد سب سے زیادہ گرم شہر ہوگا اور اس شہر کا اوسط درجہ حرارت 29.9 ڈگری سینٹی گریڈ سے 32 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ہے

حیدرآباد کے بعد جیکب آباد، بہاولنگر اور بہاولپور کے درجہ حرارت میں اضافے اور گرم ترین شہر بننے کا اندیشہ ہے

اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان اور بھارت میں انتہائی سخت موسمیاتی حالات کے پیش نظر خوراک کی قلت اور زراعت پر مبنی ملکی معیشت کو سب سے زیادہ خطرہ ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی بالخصوص سیلاب کی وجہ سے کسانوں کو فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے جبکہ کئی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں جبکہ پاکستان، بھارت اور چین کے شمالی علاقوں میں پانی کا دباؤ میں اضافہ کا بھی امکان ہے

اس کے علاوہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کی عالمی کوششیں قابل قبول اثرات مرتب نہیں کررہی ہیں، جس کی وجہ سے کرہ ارض کم از کم 2.5 ڈگری تک گرم ہورہا ہے جسے کئی سیائنسدانوں نے خطرہ کی علامت قرار دیا ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس صدی کے آخر میں جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان اور بھارت میں درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ طویل دورانیہ کی شدید ہیٹ ویو کا بھی امکان ہے

جبکہ تین لاکھ سے زائد آبادی والے تین سو تیس شہروں میں رہنے والے افراد بالخصوص بھارت کے شہر دہلی اور کولکتہ اور پاکستان کے شہر کراچی میں گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے پہلے ہی خشک سالی کے خطرہ کی لپیٹ میں ہیں

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بالخصوص بھارت کے شہر ڈھاکہ میں خشک سالی کی وجہ سے معیشت شدید نقصان سے دوچار ہے

رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے تفصیلات بھی بتائی گئیں جس میں کہا گیا کہ اکیسویں صدی کے وسط میں آمو دریا، دریائے سندھ اور دریائے گنگا کے بین الاقوامی سرحدی دریائوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کی شدید کمی کا سامنا ہوسکتا ہے

یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا میں آبپاشی کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار بڑھتا جارہا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت، بنگلادیش، پاکستان اور چین ایک ساتھ مل کر پوری دنیا کا پچاس فی صد سے زائد زمینی پانی نکالنے ہیں

رپورٹ میں مصنفین کا کہنا تھا کہ زیر زمین پانی ضرورت سے زیادہ نکالنے کی وجہ سے نہ صرف پینے کے صاف پانی کی قلت ہوگی بلکہ آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا کے ہندوکش ہمالیائی خطہ تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے، یہ جنوبی ایشیا کے لیے پانی کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک ہے جن میں بالخصوص افغانستان، پاکستان، نیپال، چین، بھارت، بھوٹان، بنگلہ دیش اور میانمار کے ممالک شامل ہیں

ہندوکش ہمالیائی خطہ دس بڑے دریاؤں کے ساتھ منسلک ہے، جو جنوبی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا کو پانی فراہم کرتا ہے، ایک اندازہ کے مطابق سنہ 2050ع تک ہندوکش ممالک میں پچاس فی صد سے زائد آبادی مقیم ہونے کا امکان ہے

ہدوکش ہمالیائی خطے کے زیادہ تر علاقے پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تالاب، جھیلوں اور چشموں سے پانی کا استعمال کرتے ہیں، پہاڑی علاقوں میں پانی کا تحفظ ہر گزرتے وقت کے ساتھ عدم تحفظ کا شکار ہورہا ہے

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارش کی رفتار اور دورانیہ میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے، کئی علاقوں میں وقفے وقفے سے بارشیں ہورہی ہیں جو پہاڑی علاقون میں لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنتی ہیں

اس کےعلاوہ ہمالیائی خطے میں گلوبل ورمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے گلیشئیر پگھل رہے ہیں اور ہائیڈروولوجیکل نظام میں تبدیلی آرہی ہے

گلیشئیر پگھلنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے صوبہ پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے کاربن جمع ہورہا ہے

ان تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی ایشائی خطے کا بڑا حصہ متاثر ہونا شروع ہوگیا ہے، اس کی ایک بڑی مثال پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریوں کا نتیجہ کا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close