کلیم اللہ کی والدہ گہرے دکھ کے باعث ابھی تک سکتے کی سی کیفیت میں ہیں۔ جوان بیٹے کی اچانک موت نے اُنہیں بے حال کر دیا ہے۔ پورا علاقہ غم زدہ ہے۔ کلیم اللہ چند ماہ قبل چھٹیوں پر آئے تھے اور یہ کہہ کر دوبارہ لوٹ گئےکہ قطر ورلڈکپ کے بعد وہ دوبارہ چھٹیوں پر آئیں گے، لیکن۔۔ وہ اس سے پہلے ہی واپس آ گئے مگر بدقسمتی سے اس بار وہ زندہ نہیں لوٹے
صوبہ خیبر پختونخوا کی تحصیل شبقدر کے رہائشی کلیم اللہ قطر میں کام کے دوران ایک کرین حادثہ میں ہلاک ہو گئے
کلیم اللہ کے کزن محمد وقار بتاتے ہیں کہ دوحہ حادثے میں ہلاک ہونے والے ضلع ہنگو کے رہائشی محمد جلیل کی لاش بھی جمعہ کے روز پاکستان لائی گئی۔ دونوں کی نماز جنازہ ان کے آبائی علاقوں میں جمعہ کو ادا کر کے ان کی تدفین کر دی گئی ہے
یاد رہے کہ کرین حادثہ میں تین پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے دو کی میتیں پاکستان لائی گئی ہیں جبکہ یوسف میاندار نامی شخص کی نماز جنازہ اور تدفین قطر ہی میں کی گئی ہے۔ ان کا تعلق ضلع خیبر کے علاقے باڑہ سے ہے
تینوں قطر میں گذشتہ کئی عرصے سے فائر فائٹرز کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب فٹبال ورلڈکپ سے پہلے کسی بھی حادثے سے نمٹنے کی ریہرسل کی جا رہی تھی
حادثہ کیسے پیش آیا؟
دوحہ حادثہ میں ہلاک ہونے والے ضلع ہنگو کے محمد جلیل کے کزن محمد خلیل کہتے ہیں ”ہمیں دوحہ سے بتایا گیا ہے کہ حادثہ 26 اکتوبر کو اس وقت پیش آیا تھا، جب فائر فائٹرز ایک کرین پر ریہرسل کررہے تھے“
محمد خلیل نے بتایا ”ہم تک پہچنے والی اطلاعات کے مطابق محمد جلیل سمیت دیگر دو پاکستانیوں سے پہلے دیگر فائر فائٹرز نے کرین پر سوار ہو کر کسی بھی حادثے سے نمٹنے کی کامیاب ریہرسل کی تھی۔ ہلاک ہونے والے پاکستانیوں سے پہلے تقریباً تین تین افراد پر مشتمل چار کے دستے نے یہ ریہرسل کامیابی سے انجام دی تھی“
خلیل بتاتے ہیں ”جب ان تینوں کی ریہرسل کی باری آئی اور یہ اونچائی پر ریہرسل میں مصروف تھے تو اچانک کرین درمیان سے ٹوٹ گئی اور یہ تینوں بلندی سے نیچے گر کر ہلاک ہو گئے“
یوسف میاندار، جن کی تدفین قطر ہی میں ہوئی ہے، کی آخری رسومات کل جمعہ کے روز قطر ہی میں ادا کی گئیں، جس میں قطر کی اہم سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی
رسم میں شرکت کرنے والے ایک پاکستانی نے بتایا کہ تعزیت کے لیے آنے والے حکام نے یوسف میاندار کے لواحقین اور والد کو بتایا ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں
’یہ ایک ناقابل یقین حادثہ ہے۔ کرین جو حادثہ کا شکار ہوئی ہے بالکل نئی تھی۔ اس کرین پر نہ صرف یہ کہ ریہرسل بھی کی جا رہی تھی بلکہ اس کی کارگردگی کو بھی جانچا جا رہا تھا۔‘
ہلاک ہونے والے پاکستانی کون تھے؟
یوسف میاندار کی عمر پچیس سال بتائی جا رہی ہے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ اور دو کم عمر بچے شامل ہیں۔ یوسف میاندار کے والد ملازمت کے سلسلے میں کئی سال پہلے قطر گئے تھے۔ یوسف میاندار کی پیدائش قطر ہی میں ہوئی تھی۔ ان کا تعلق ضلع خیبر سے ہے
محمد وقار کے مطابق تقریبا چونتیس سالہ کلیم اللہ بیس سال کی عمر سے قطر میں فائر فائٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوگواروں میں بیوہ اور تین کم عمر بچے چھوڑے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی کی عمر چھ سال ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر تقریباً ایک سال ہے
کلیم اللہ کے والد گذشتہ سال فوت ہوگے تھے، جبکہ ان کی والدہ حیات ہیں
خلیل کہتے ہیں کہ محمد جلیل گذشتہ کئی برسوں سے قطر میں فائر فائٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے سوگواروں میں پانچ کم عمر بچے، تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑے ہیں
محمد خلیل کے والد بھی گذشتہ سال فوت ہو گئے تھے، جبکہ ان کی والدہ حیات ہیں
محمد خلیل کہتے ہیں کہ ان کی موت نے سارے علاقے کو غم زدہ کر دیا ہے۔ بیوہ اور والدہ کی حالت غیر ہے۔ چند ماہ پہلے چھٹیوں پر آئے تھے تو کہتے تھے کہ دوبارہ آئیں گے
وقار کہتے ہیں ”کلیم اللہ ہر سال چھٹیوں پر آتے تھے۔ چند ماہ قبل بھی چھٹیوں پر آئے تھے۔ وہ سال میں ایک مرتبہ چالیس دن کی چھٹیوں پر گھر آتے تھے۔ آخری مرتبہ آئے تو بتا رہے تھے کہ ورلڈکپ کی تیاری زور وشور سے ہو رہی ہے، جس میں اب ہر کوئی مصروف ہوگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اب ورلڈکپ سے پہلے چھٹی ملنا مشکل ہے اور ورلڈ کپ کے بعد آنے کی کوشش کروں گا“
محمد وقار کا کہنا تھا کہ کلیم اللہ جب آخری مرتبہ پاکستان آئے تھے تو انہوں نے زیادہ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزارا تھا۔ اپنے بچوں کو انھوں نے تفریح بھی کروائی تھی۔ مختلف مقامات پر لے کر گئے تھے۔ بچوں کے حوالے سے وہ بہت حساس تھے اور بچوں سے بہت پیار بھی کرتے تھے
خلیل کہتے ہیں ”محمد جلیل تقریباً دو ماہ پہلے چند دن کے لیے آئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ورلڈکپ کی وجہ سے بڑی مشکل سے چند دن کی چھٹیاں ملی ہیں۔ ورلڈکپ کے بعد زیادہ دنوں کے لیے پاکستان آئیں گے“
ان کا کہنا تھا کہ محمد جلیل بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت فکرمند رہتے تھے۔ اکثر کہتے تھے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ وہ بچوں کے قریب رہ سکیں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکیں، جس کے لیے وہ ہر ممکنہ اقدامات کرتے تھے
وقار کہتے ہیں کہ کلیم اللہ کے والد تقریباً ایک سال پہلے وفات پا گئے تھے۔ ان کے والد بھی قطر میں ملازمت کرتے رہے تھے اورکافی عرصے سے ریٹائر ہونے کے بعد آبائی علاقے میں رہتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد جب کلیم اللہ آخری مرتبہ پاکستان آئے تھے تو والدہ کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے والدہ کی بہت دلجوئی کی تھی۔ والدہ کو تسلی دی تھی اور کچھ ایسا سوچ رہے تھے کہ وہ کسی طرح والدہ کے قریب ہی رہیں اس کے لیے انہیں ورلڈکپ کے ختم ہونے کا انتظار تھا مگر اس سے پہلے ہی اجل نے آ لیا۔ اس وقت ان کی والدہ سکتے کی سی حالت میں ہے
خلیل کہتے ہیں ’محمد جلیل کی والدہ کی حالت غیر ہو چکی ہے۔ انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بیوہ کی حالت بھی غیر ہے۔ وہ لوگ تو اس انتظار میں تھے کہ ورلڈ کپ کے بعد وہ دوبارہ آئیں گے۔‘