پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کے دوران نجی ٹی وی چینل سے وابستہ خاتون صحافی صدف نعیم کی حادثاتی موت کے بعد ان کے خاوند نے پولیس کو لکھ کر دیا ہے کہ ان کی بیوی کی ہلاکت ایک حادثہ ہے، وہ ’کسی قسم کی کارروائی یا پوسٹ مارٹم‘ نہیں کروانا چاہتے
اطلاعات کے مطابق کنٹینر سے گرنے کے بعد کچلے جانے صدف نعیم کی موت واقع ہوئی۔ خاتون رپورٹر کا تعلق نجی ٹی وی چینل فائیو نیوز سے تھا
مارچ کے دوران چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا ’مجھے بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ایک حادثے کی وجہ سے ہمیں اپنا آج کا لانگ مارچ ملتوی کرنا پڑا ہے۔‘ اس کے بعد مارچ کو روک دیا گیا تھا
موقع پر موجود صحافی شاہد چوہدری نے بتایا ’کنٹینر کے آس پاس رش تھا اور صدف پیدل کنٹینر کے ساتھ چل رہی تھیں۔ انہیں دھکا لگا اور وہ ٹائر کے نیچے آگئیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’صدف کی موت کنٹینر ان کے اوپر سے گزرنے کے بعد ہی ہو گئی تھی۔‘
صحافی شاہد چوہدری نے بتایا کہ ’نیچے سے لوگوں نے شور مچایا تو کنٹینر سے عمران خان و دیگر قیادت نے کنٹینر رکوایا اور تفصیلات معلوم کیں‘
کوریج کے لیے عمران خان کے کنٹینر موجود صحافی قذافی بٹ نے بتایا کہ جب حادثہ پیش آیا اور وہ دیگر رپورٹرز کے ہمراہ نیچے پہنچے تو چینل کا لوگو دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ ’یہ ہماری ساتھی خاتون رپورٹر صدف نعیم ہیں‘
قذافی بٹ نے کہا کہ یہ ’دیکھتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو گئے کہ جو ساتھی رپورٹر کچھ دیر پہلے تک ہمارے ساتھ لائیو بیپر دے رہی تھیں وہ ایک لاش بنی پڑی ہے۔‘
صدف نعیم لاہور کے علاقے اچھرہ کی رہائشی تھیں۔ لواحقین میں دو بچے اور ان کے شوہر شامل ہیں
صدف نعیم نے گزشتہ روز کنٹینر میں عمران خان کا انٹرویو بھی کیا تھا، جو ان کا آخری انٹرویو ثابت ہوا۔ وہ پنجاب اسمبلی اور شوبز کی بیٹ گزشتہ دس سال سے کر رہی تھیں
جب عمران خان کے انٹرویو کے غرض سے چند رپورٹرز کو کنٹینر پر بلایا گیا تو پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ نے صدف کا ہاتھ پکڑ کر انھیں بھی کنٹینر پر بلا لیا، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا نام رپورٹرز کی اُس لسٹ میں موجود نہیں تھا جنھیں اس روز عمران خان کے انٹرویو کرنے تھے۔
بعد ازاں مسرت چیمہ نے مجھے بتایا کہ صدف چونکہ ایک انتہائی محنتی رپورٹر ہے اس لیے انھیں اچھا نہیں لگا کہ وہ پیدل چلتی رہیں، اسی لیے انھوں نے صدف کو لسٹ میں نام نہ ہونے کے باوجود کنٹینر پر بلا لیا
صدف نعیم کے خاوند محمد نعیم کا کہنا ہے کہ وہ فوٹو گرافر کی نوکری کرتے ہیں ان کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور وہ دونوں مل کر گھر کا خرچ چلاتے تھے
انہوں نے مزید بتایا ’صدف نے کبھی مشکل حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارا، بطور رپورٹر انہوں نے بہت محنت کی۔ وہ بہت خوددار تھیں اور کسی سے مدد لینا انہیں پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے سب مسائل خود حل کیا کرتی تھیں۔‘
’چودہ پندرہ سال سے وہ چینل فائیو کے ساتھ ہی وابستہ تھیں، آج پیش آنے والا واقعہ ایک حادثہ ہے جسے اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا۔‘
’صدف کو بچے روکتے رہے کہ ماما آج کام پر نہ جائیں‘
شوہر نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ ’جب وہ لانگ مارچ کور کرنے کے لیے گھر سے نکل رہی تھیں تو بچوں نے انہیں روکا۔بچوں کا کہنا تھا کہ ماما کام پر نہ جائیں آپ سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا مجبوری ہے، کوشش کروں گی کہ جلدی آجاؤں، اور انہیں پیار کر کے نکل گئیں۔‘
انہوں نے کہا ’وہ اپنے کام سے بہت محبت کرتی تھیں۔ انہیں کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بہت محنت کر رہے تھے۔ یقین نہیں تھا وہ اتنی جلدی چلی جائیں گی۔‘
صدف نجی ٹی وی چینل فائیو میں پرانے گانوں پر مشتمل ایک پروگرام ’پرانے گیت پرانی غزلیں‘ کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیتی تھیں۔
لاہور سے جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو وہ ان صحافیوں میں سے تھیں جنہیں تحریک انصاف کی انتظامیہ نے عمران خان کا انٹرویو کرنے کی اجازت دی تھی
ساتھی رپورٹرز کیا کہتے ہیں
چینل فائیو میں کام کرنے والے سینیئر پروڈیوسر شکیل احمد بتاتے ہیں ’جب وہ عمران خان کا انٹرویو کر کے آئیں تو انہیں چیف ایگزیکٹیو امتنان شاہد نے شاباش دی۔‘
’انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ لانگ مارچ کور کرنے جانا چاہتی ہیں تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ انہیں شوبز کے بعد سیاسی رپورٹنگ میں تحریک انصاف کی بیٹ کور کرنا پسند تھا‘
میں ذاتی طور پر صدف کو دو ہزار آٹھ سے جانتا ہوں اور انہیں تقریباً ہر بیٹ میں کام کرتے دیکھا۔ شوبز، سپورٹس، سیاست، تعلیم اور ہر قسم کے احتجاج کی کوریج کے دوران وہ اپنے مخصوص انداز میں موجود ہوتی تھیں۔
حال ہی میں انہوں نے پاکستان انگلینڈ کرکٹ سیریز کے لاہور میں کھیلے گئے میچز بھی کور کیے
سپورٹس صحافی سہیل عمران بتاتے ہیں کہ ’میں نے صدف سے زیادہ محنتی رپورٹر نہیں دیکھی۔ وہ اتنی سادہ طبیعت کی مالک تھیں جیسے کوئی درویش ہو۔‘
ترہب اصغر کہتی ہیں ”صدف نے کہا تھا کہ ’ابھی تو لانگ مارچ چل رہا ہے، بس جیسے ہی یہ ختم ہوگا تو میں بریک پر چلی جاؤں گی۔ اب نہیں ہوتا یہ مجھ سے، تم یقین کرو کہ میں بہت زیادہ تھک گئی ہوں۔‘
ترہب کا کہنا ہے ”صدف کی شخصیت اتنی معصوم تھی کہ میں نے کبھی اس کے منھ کسی دوسرے شخص کی برائی نہیں سنی وہ ہمیشہ بس اپنے کام کی ہی بات کرتی تھی“
انہوں نے کہا ”وہ اپنا ظاہری حلیہ بھی فیلڈ صحافیوں جیسا ہی رکھتی تھی یعنی رف اینڈ ٹف اور ہر وقت ہر جگہ جانے کے لیے تیار، ایک ایسی صحافی جو اپنے ساتھ کے دیگر صحافیوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے ہی رہتی تھی اور بعض اوقات اُس کی اِس اپروچ پر اس کا مذاق بھی اڑتا تھا مگر نہ اس مذاق کو وہ محسوس کرتی تھی اور نہ ہی کسی سے گلہ کرتی تھی“
ترہب اصغر بتاتی ہیں ”لانگ مارچ کے پہلے ہی روز صدف نے عمران خان کے ساتھ اپنے چینل کے لیے گفتگو کی تھی اور آج اس کے ساتھ موجود دوستوں نے بتایا کہ وہ ایک اور انٹرویو حاصل کرنے کی غرض سے لگ بھگ دو کلومیٹر لانگ مارچ کے قافلے کے ساتھ پیدل چلی۔“