بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو قطر کے سکیورٹی بیورو نے گرفتار کر لیا ہے، تاہم اس گرفتاری کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے
بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں آٹھ سابق نیوی افسران کی حراست کے معاملے پر قطر سے رابطے میں ہے اور ان کی رہائی کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ قطر کی جانب سے اب تک باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا
بحریہ کے سابق یہ اہلکار قطر کی ایک کمپنی ’الظاہرہ العالمی کنسلٹینسی اینڈ سروسز‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کرتی ہے
بھارتی وزارت خارجہ اس معاملے پر اس معاملے پر کافی عرصے سے چپ سادھے ہوئے تھی، لیکن اب اس نے بتایا ہے کہ ان کا سفارتخانہ گرفتار افراد کو قونصل سروس فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم وزارت خارجہ نے یہ وضاحت نہیں دی کہ اِن اہلکاروں کو کس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے
واضح رہے کہ بھارتی بحریہ کے سابق اہلکاروں کی گرفتاری کی خبر بھی بڑے پراسرار طریقے سے سامنے آئی تھی
25 اکتوبر کو ڈاکٹر میتو بھارگو نام کی ایک خاتون نے ایک ٹویٹ کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا ’بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکار، جنہوں نے مادر وطن کی خدمت کی ہے، گذشتہ ستاون دنوں سے دوحہ میں ’غیر قانونی‘ حراست میں ہیں۔‘
انہوں نے لکھا ’میں حکومت اور متعلقہ حکام سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ جلد ضروری اقدامات کرے اور ان اہلکاروں کو کسی تاخیر کے بغیر قطر سے رہا کروا کر بھارت لائے۔‘
ڈاکٹر میتو نے اس ٹویٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹیگ کیا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد بھی کئی ٹویٹس کیے جن میں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ اور دوسرے وزرا کو بھی ٹیگ کیا گیا
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر میتو بھارگھو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں خود کو ماہر تعلیم اور روحانیت سے وابستہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہیں یہ نہیں بتایا کہ ان کا دوحہ میں بحریہ کے سابق اہلکاروں کی گرفتاری سے کیا تعلق ہے
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر میتو بھارگوا زیر حراست افراد میں سے ایک کی اہلیہ ہیں
یہ سابق اہلکار جس الظاہرہ العالمی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، اس کمپنی کے سربراہ خمیص العجمی رائل عمان ایئر فورس کے سبکدوش سکواڈرن لیڈر ہیں
کمپنی کی ویب سائٹ پر اسے قطر کی وزرات دفاع، سکیورٹی اور دوسری حکومتی ایجنسیوں کا ’مقامی بزنس پارٹنر‘ بتایا گیا ہے۔ اسے دفاعی آلات چلانے اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا اسپیشلسٹ بتایا گیا ہے
اس ویب سائٹ میں کمپنی کے اعلیٰ اہلکاروں اور ان کے عہدے کی فہرست بھی دی گئی تھی۔ ان میں کئی بھارتی شہریوں کے نام بھی شامل ہیں
مزید معلومات کے لیے اس ویب سائٹ کو جب آج کھولنے کی کوشش کی گئی تو یہ کھل نہیں سکی اور اس پر لکھا ہوا آتا ہے یہ سائٹ ابھی زیر مرمت ہے
یہ فرم اپنا تعارف قطری مسلح افواج کے لیے ’مقامی بزنس پارٹنر‘ کے طور پر کرواتی ہے
الظاہرہ گلوبل ٹیکنالوجی اینڈ کنسلٹنسی سروسز کے لنکڈ ان پیج پر لکھا ہے ”یہ دفاعی نظام چلانے اور انسانوں کی تربیت میں قطر میں سب سے آگے ہے۔ الظاہرہ دفاع ، سکیورٹی اور ایئرو سپیس کے شعبے میں قطر میں ممتاز اہمیت کی حامل ہے“
دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ بحریہ کے سابق اہلکاروں کی گرفتاری پر ابھی تک خاموش تھی لیکن جمعرات کو معمول کی نیوز کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ان اہلکاروں کی گرفتاری کی تصدیق کی
انہوں نے کہا ”ہم آٹھ بھارتی ’شہریوں‘ کی گرفتاری کے بارے میں واقف ہیں، جو قطر میں کسی پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ قطر میں بھارت کا سفارتخانہ قطری حکام سے رابطے میں ہے۔ سفارتخانے کے اہلکاروں کو قید بھارتی شہریوں سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی“
باگچی نے مزید بتایا کہ بحریہ کے ان سابق اہلکاروں کو اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ ’ہم نے ان شہریوں سے ملنے کے لیے ایک اور قونصلر رسائی کی درخواست کی ہے۔ ہمارا سفارتخانہ اور وزارت ان اہلکاروں کی فیملیز سے رابطے میں ہے۔ ہم ان کی جلد رہائی اور انڈیا واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘
تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ ان اہلکاروں کو قطر میں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے
بھارتی بحریہ کے جن آٹھ اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، ان میں سبکدوش کمانڈر پورنیندو تیواری بھی شامل ہیں، جو کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں 2019ع میں ایک تقریب میں اس وقت کے صدر مملکت نے ’پرواسی بھاتیہ سمان‘ ایورڈ دیا تھا
الظاہرہ کے لنکڈ ان پیج کے مطابق کمانڈر پور نیندو تیواری (ریٹائرڈ)، کمانڈر اجے تیواری (ریٹائرڈ)، کمانڈر انیش ٹھاکر (ریٹائرڈ) اور ساجن بابو نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر 15 اگست کو دوحہ میں واقع بھارت کے تقافتی مرکز میں پرچم کشائی اور ثقافتی تقریب میں شرکت کی تھی
قطر میں بھارت کے ان سابق اہلکاروں کی گرفتاری پُراسرار بنی ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں قطر اور متحدہ عرب امارات کے اخبارات میں بھی کہیں کوئی خبر نظر نہیں آئی
ایک کو چھوڑ کر باقی سات اہلکاروں کے نام بھی سامنے نہیں آئے ہیں
دوسری جانب گرفتار کیے گئے اہلکاروں کے رشتے دار بھی خاموش ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ جس طرح ان اہلکاروں کی رہائی اور انھیں انڈیا واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے اس سے واضح ہے کہ یہ پُراسرار معاملہ اہم نوعیت کا ہے
واضح رہے کہ بھارتی نیوی کے افسران کی مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں حراست کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی حکام نے بھی جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں مارچ 2016 میں ایک بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادو کو بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا تھا۔
قطر میں بھارتی بحریہ کے متعدد سابق افسران حراست میں۔۔ معاملہ کیا ہے؟