اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ نومبر 2022ع کے وسط تک دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ جائے گی اور آنے والی دہائیوں میں سست روی اور علاقائی فرق کے باوجود اس میں اضافہ ہوتا رہے گا
15 نومبر کو دنیا کی آبادی 8 ارب کو پہنچ جائے گی، لیکن کیا یہ مخلوق کرہ ارض پر موجود وسائل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے؟ کہیں آٹھ ارب انسان اس وسیع و عریض کرہ ارض کے لیے بہت زیادہ تو نہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں، جو بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر منصوبہ سازوں کو پریشان کرتے آئے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں کے خیال میں اس سے زیادہ بڑا مسئلہ امیر طبقے کا ضرورت سے زیادہ وسائل کا استعمال ہے
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی کی سربراہ نٹالیا کانیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ 8 ارب آبادی کے سنگ میل کا حصول انسانیت کے لیے انتہائی تاریخی لمحہ ہے لیکن بہت لوگوں کے لیے یہ باعثِ تشویش بھی ہے
انہوں نے زیادہ آبادی سے جڑے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ واضح کر دوں کہ انسانوں کی یہ تعداد خوفزدہ ہونے کا سبب نہیں ہے۔‘
اکثر ماہرین کے خیال میں اصل مسئلہ آبادی کے اضافے کا نہیں ہے بلکہ ایک محدود طبقے کا زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضے کا ہے
امریکہ کی روکیفیلر یونیورسٹی میں پاپولیشن لیبارٹری کے بائیولوجسٹ جوئیل کوہن کہتے ہیں ”کرہ ارض کی قدرتی حدود اور انسانوں کی خواہشات یہ دو ایسے نکات ہیں، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ زمین پر وسائل انسانوں کی کتنی بڑی تعداد کے لیے کافی ہیں؟
’ہم بے وقوف اور لالچی ہیں‘
انسانوں کی خواہشات جنگلات اور زمین جیسے حیاتیاتی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی وجہ بنتی ہیں، جو دوبارہ اتنی تیزی سے پیدا بھی نہیں ہو سکتے۔ جیسے حیاتیاتی ایندھن کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی زیادہ ہو رہا ہے جو درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے
بائیولوجسٹ جوئیل کوہن کا کہنا ہے ”ہم بے وقوف ہیں۔ ہم میں دور اندیشی کی کمی ہے۔ ہم لالچی ہیں۔ ہم ان معلومات کا استعمال ہی نہیں کرتے جو ہمارے پاس موجود ہیں“
امریکی محقق جنیفر سکیوبا کا کہنا ہے ”انسانوں کے زمین پر اثرات کی وجہ ان کی تعداد نہیں بلکہ ان کا رویہ ہے۔ اس کی وجہ میں اور آپ ہی ہیں۔ جو ایئرکنڈیشن میں انجوائے کرتی ہوں، جو سوئمنگ پول میرے گھر میں ہے اور ہر رات جو گوشت میں کھاتی ہوں، یہ تمام عناصر زمین کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کی وجہ بنتے ہیں“
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق سال 2050 تک دنیا کی آبادی 9.7 ارب ہو جائے گی
ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والی تنظیم ’پروجیکٹ ڈرا ڈاؤن‘ کے مطابق تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی یعنی آبادی پر قابو پانا گلوبل وارمنگ کے مسائل کے حل میں سے ایک ہیں
پروجیکٹ ڈرا ڈاؤن کے مطابق پائیدار وسائل اور کم آبادی کے ذریعے ہی توانائی، نقل و حمل، خوراک اور دیگر وسائل کی طلب میں کمی ممکن ہو سکتی ہے
تحقیقاتی ادارے ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ونیسا پیریز اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہر نئے پیدا ہونے والے انسان سے وسائل پر بوجھ بڑھتا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا ”مسئلہ انسانوں کی تعداد کا نہیں ہے، بلکہ ’تقسیم اور مساوات‘ کا ہے“
بائیولوجسٹ جوئیل کوہن بھی یہی نکتہ اٹھاتے رہے ہیں کہ اگرچہ زمین پر موجود وسائل آٹھ ارب کی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس کے باوجود آٹھ کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں
ذیل میں اقوام متحدہ کے تجزیے سے کچھ اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:
آبادی میں اضافے کی سست روی
اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کا اندازہ ہے کہ 15 نومبر تک زمین پر انسانوں کی تعداد بڑھ کر آٹھ ارب ہو جائے گی، جو 1950ع میں 2.5 ارب عالمی آبادی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی برانچ چیف ریچل سنو نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ 1960ع کی دہائی کے اوائل میں اپنے عروج کے بعد دنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے
سالانہ اضافہ 1962ع اور 1965ع کے درمیان 2.1 فیصد کی بلند ترین سطح سے گر کر 2020ع میں ایک فیصد سے کم ہو گیا ہے
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شرح فرٹیلیٹی میں مسلسل کمی کی وجہ سے 2050ع تک یہ تعداد ممکنہ طور پر 0.5 فیصد تک گر سکتی ہے
انسانوں کی تعداد کب سب سے زیادہ ہوگی؟
متوقع عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بچے پیدا کرنے کی عمر کے لوگوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ، اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا ہے کہ آبادی 2030ع میں تقریباً 8.5 ارب، 2050ع میں 9.7 ارب اور 2080ع کی دہائی میں تقریباً 10.4 ارب تک پہنچ سکتی ہے
تاہم ، دوسرے گروپوں کے اعدادوشمار مختلف ہیں
امریکہ میں قائم انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) نے 2020ع کے ایک مطالعے میں تخمینہ لگایا کہ عالمی آبادی 2064ع تک زیادہ سے زیادہ ہوجائے گی، اور کبھی بھی دس ارب تک پہنچے بغیر 2100ع تک 8.8 ارب تک گر جائے گی
آئی ایچ ایم ای کے مطالعے کے مرکزی مصنف اسٹین ایمل وولسیٹ نے اے ایف پی کو بتایا ”ہمارا اندازہ اقوام متحدہ سے کم ہے اور میرے خیال میں ہمارے پاس اس کی ایک معقول وجہ ہے“
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ ان کے ’بالکل مختلف فرٹیلیٹی ماڈل‘ کے تحت، انسانی آبادی صرف نو سے دس ارب کے درمیان تک پہنچ پائے گی
تولیدی صلاحیت میں کمی
اقوام متحدہ کے مطابق 2021ع میں، اوسط فرٹیلیٹی کی شرح فی عورت 2.3 بچوں کی تھی، جو 1950ع میں تقریبا پانچ سے کم ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نمبر 2050ع تک 2.1 تک گر جائے گا
ریچل سنو کا کہنا ہے ”ہم دنیا میں اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں اس دنیا کے زیادہ تر ممالک اور لوگوں کی اکثریت ایک ایسے ملک میں رہ رہی ہے، جو متبادل فرٹیلیٹی سے کم ہے یا فی عورت تقریباً 2.1 بچے ہیں“
عالمی سطح پر گرے رنگ
عالمی آبادی میں اضافے کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ اوسط متوقع عمر میں اضافہ جاری ہے: 2019ع میں 72.8 سال تھا، جو کہ 1990ع کے مقابلے میں نو سال زیادہ ہے
اقوام متحدہ نے 2050ع تک اوسط انسانی عمر 77.2 سال ہونے کی پیش گوئی کی ہے
تولیدی صلاحیت میں کمی کو ساتھ ملا کر نتیجہ یہ ہے کہ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کا تناسب 2022ع میں دس فیصد سے بڑھ کر 2050ع میں سولہ فیصد ہونے کا امکان ہے
اس عالمی گرے رنگ کا لیبر مارکیٹوں اور قومی پنشن کے نظام پر اثر پڑے گا، جبکہ بزرگوں کی زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی
ریچل سنو کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سے رابطہ کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ ’یو این ایف پی اے آبادی کو بڑھانے میں ہماری کس طرح مدد کر سکتا ہے۔‘
بے مثال تنوع
عالمی اوسط کے نیچے کچھ بڑے علاقائی فرق ہیں:
مثال کے طور پر، اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2050ع تک آبادی میں نصف سے زیادہ اضافہ صرف آٹھ ممالک میں ہوگا: کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائجیریا، پاکستان، فلپائن اور تنزانیہ
رچل سنو کے مطابق، مختلف خطوں میں اوسط عمر بھی معنی خیز ہے، اس وقت یورپ میں 41.7 سال ہے جبکہ سب صحارا افریقہ میں 17.6 سال۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ فرق ’کبھی بھی اتنا بڑا نہیں تھا، جتنا آج ہے۔‘
ان کا کہنا ہے ”ماضی کے برعکس جب ممالک میں اوسط زیادہ نوجوان تھے، مستقبل میں، ہوسکتا ہے کہ زیادہ آبادی بزرگی کے قریب ہو“
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ علاقائی آبادیاتی فرق مستقبل میں جغرافیائی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں
بھارت چین کو پیچھے چھوڑ دے گا
اقوام متحدہ کے مطابق، بدلتے ہوئے رجحانات کی ایک اور مثال کے تحت دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک، چین اور بھارت، 2023ع تک آپس میں نمبر تبدیل کر لیں گے
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ چین کی 1.4 ارب آبادی بالآخر کم ہونا شروع ہو جائے گی اور 2050ع تک یہ کم ہو کر 1.3 ارب رہ جائے گی
اس صدی کے اختتام تک، چینی آبادی صرف 80 کروڑ تک گر سکتی ہے
بھارت کی آبادی، جو اس وقت چین سے تھوڑی سی کم ہے، توقع ہے کہ 2023ع میں اپنے شمالی ہمسائے کو پیچھے چھوڑ دے گی اور 2050ع تک 1.7 ارب تک بڑھ جائے گی۔ حالانکہ اس کی فرٹیلیٹی کی شرح پہلے ہی متبادل سطح سے نیچے گر چکی ہے
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق امریکہ 2050ع تک آبادی کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا ملک رہے گا لیکن اس کی آبادی نائجیریا کے برابر37 کروڑ 50 لاکھ ہو جائے گی۔