انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اُس کے ساتھ ہی اس کے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی یہ امتحان ’معاش‘ کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی ’معاشرت‘ کی صورت میں۔ کبھی یہ امتحان ’سیاست‘ کی صورت میں ہوتا ہے تو کبھی ’جنگ‘ کی صورت میں۔ غرض جب تک انسان زندہ رہتا ہے، اُس کی زندگی امتحان میں ہی گزر جاتی ہے۔ اسی طرح تعلیم بھی انسان کی اُس وقت تک جاری رہتی ہے، جب تک اُس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں
فی زمانہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا سلسلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ طلبا کو پورے سال پڑھایا جاتا ہے، پھر اُن کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اس میں اچھے نمبر یا کم نمبر لے کر وہ اگلے درجے میں پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ کامیاب ہونے کا ایک معیار واضح کر دیا گیا ہے کہ کامیاب ہونے کے لیے کم از کم 33 فیصد نمبر لازمی درکار ہوتے ہیں۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ جب انگریز نے 1858ع میں برصغیر میں امتحان لینے کا سلسلہ شروع کیا تو اُن کے پاس کامیاب ہونے کا جو پیمانہ تھا، وہ کم ازکم 65 فیصد تھا، وہاں کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ برِصغیر کے لوگوں کی عقل ہم سے آدھی ہے، لہٰذا ان کی کامیابی کےلیے کم از کم 32.5 فیصد نمبر دیے جائیں جو آگے جاکر 33 فیصد ہو گئے
یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ کسی ایک معیار (جیسے کہ گریجویٹ یا ماسٹرز یا اس سے بھی آگے) تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مختلف تعلیمی سسٹمز ہیں؛ ایک اسکول سسٹم، جب کہ دوسرا مدارس سسٹم۔ ان دونوں سسٹمز میں ایک بات مشترک ہے کہ طریقۂ امتحان میں کوئی فرق نہیں۔ مثلاً، دونوں سسٹمز میں امتحان کا طریقۂ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ تمام طلبا کو ’کمرۂ امتحان‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے اور ممتحن کی نگرانی میں کچھ انویجیلیٹرز ہوتے ہیں، جن کو یہ ذمے داری سونپی جاتی ہے کہ وہ امتحانی پرچہ طلبا میں تقسیم کریں اور پھر پورے وقت (مجوزہ وقت) طلبا پر کڑی نگرانی رکھے رہیں تاکہ وہ نقل نہ کر سکیں۔ اس پورے عمل میں طلبہ ’چہار زندان‘ میں ہوتے ہیں، یعنی ’چار قید خانوں میں‘ یہ قید خانے اصل میں اُن کے ’چار خوف‘ ہوتے ہیں، جس میں جیتے ہوئے وہ کمرۂ امتحان میں داخل ہوتے ہیں
’چہار زندان‘ کچھ اس طرح سے ہیں:
1- والدین۔ 2- اساتذہ۔ 3- مسابقت۔ 4- مستقبل۔
اگرچہ ان کے علاوہ بھی ہوسکتے ہیں، لیکن یہ چار بنیادی ہیں۔ آئیے ان چاروں زندان کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
والدین: والدین اپنے بچوں کی تعلیم میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ خود اگر پڑھے لکھے نہ ہوں تو بھی ان کی سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنی سعی کے مطابق تعلیم دیں گے۔ اس کے لیے وہ اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔ دن کا چین اور راتوں کا سکون ختم کر کے اس سعی میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے بچے پڑھ لیں۔ جب امتحان کا وقت آتا ہے تو یہ آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے کچھ کر کے دکھائیں گے۔ بچے بھی پوری محنت کرتے ہیں۔ ایک طرف اُن کا شوق تو دوسری طرف والدین کا انجانا خوف کہ کہیں کم نمبر یا فیل ہو گئے تو کیا ہوگا؟
اساتذہ: اساتذہ اپنی بھرپور محنت اور شفقت سے طلبا کو پورے سال پڑھاتے ہیں۔ انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ اُن کے پڑھائے ہوئے طلبا کچھ کر کے دکھائیں گے۔ وہ اس بات کا اظہار اکثر کمرۂ جماعت میں بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کمرہ امتحان میں طلبا کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر فلاں مضمون میں کم نمبر آگئے تو اپنے استاد/ استانی کو کیا منہ دکھائیں گے۔ دوسری طرف اساتذہ کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ طلبا نے اگر کم نمبر لیے یا فیل ہو گئے تو اسکول انتظامیہ کو کیسے مطمئن کریں گے؟
مسابقت: کمرۂ جماعت میں مسابقتی مہم بھی چلتی ہے، یعنی طلبا کا ایک دوسرے سے مقابلہ۔ کمرۂ امتحان میں جب طلبا پہنچتے ہیں تو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر فلاں جماعت یا فلاں طالب علم سے ہم پیچھے رہ گئے تو؟
مستقبل: کمرۂ جماعت میں ایک آخری خوف، مستقبل کا خوف ہوتا ہے۔ طلبا کی یہ سوچ کہ اگر ہم فیل ہوگئے تو ہمارے مستقبل کا کیا ہوگا؟ ہم معاشرے میں کس طرح اپنا مقام پیدا کر سکیں گے؟ کیا اچھا روزگار ملے گا؟ کیا عزت رہے گی؟ وغیرہ۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ طلبا چہار زندان میں ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طلبا ان ’چہار زندان‘ یعنی چار قیدخانوں سے کیسے باہر آ سکتے ہیں؟ کیا وہ پرسکون انداز میں کمرۂ امتحان میں پرچہ دے سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ طلبا اپنے آپ کو ’چہار زندان‘ کے بجائے ’چہار چمن‘ یعنی چار باغوں میں رکھیں تو زندگی آسان اور گلزار بن جائے۔ مگر کیا یہ ممکن ہے؟
طلبا اپنے آپ کو ’چہار چمن‘ میں خود نہیں رکھ سکتے، بلکہ ان کے والدین اور اساتذہ ہی انہیں ’چمن‘ میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ ’چہارچمن‘ کیا ہیں؟
پہلا چمن، اعتماد: والدین کی طرف سے اُن کے بچوں کےلیے اصل چمن ’اعتماد‘ ہے۔ اعتماد دیتے رہیں گے تو بچوں پر سے ’بوجھ‘ اور ’قید‘ جیسی سوچیں خود بہ خود ختم ہوتی جائیں گی۔ اپنے بچوں کو یہ اعتماد دلائیں کہ ’علم ‘ حاصل کرنا ہے، محنت کرنی ہے، لیکن اگر نمبر کم آ گئے تو ہمارا رشتہ ویسا ہی رہے گا، جیسا کہ اب ہے۔ اس اعتماد کی وجہ سے بچوں کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا ہوگا اور کمرۂ امتحان میں اپنے والدین کی طرف سے پہلے ’زندان‘ سے نکل کر پہلے ’چمن‘ کی طرف آجائیں گے
دوسرا چمن، رہنمائی: طلبا اساتذہ کا خوف نہ لیں بلکہ اساتذہ کو رہنما سمجھیں۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں ایسا رویہ رکھیں کہ طلبا یہ محسوس کریں کہ ہمارے استاد ہمارے ایک رہنما بھی ہیں۔ طلبا کو صحیح سمت دکھائی جائے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا جائے کہ اگر خدانخواستہ کچھ اونچ نیچ ہوتی ہے تو استاد اور شاگرد کا تعلق کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہی محبت و شفقت ہمیشہ رہے گی۔ ساتھ ہی انتظامیہ بھی محنتی اساتذہ کی قدر کرے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتی رہے۔ جب طلبا کو استاد کی طرف سے یہ اعتماد ملے گا تو وہ کمرۂ جماعت میں دوسرے زندان سے نکل کر ’دوسرے چمن‘ میں پہنچ جائیں گے
تیسرا چمن، اِدراک: طلبا کو زندگی میں مسابقتی دوڑ میں رہنا پڑتا ہے۔ ہم جماعت آگے کیسے نکل گیا؟ کمرۂ جماعت میں وہ سب سے زیادہ ’مشہور‘ کیوں ہے؟ وغیرہ۔ یہاں تک کہ امتحان میں یہ خوف رہتا ہے کہ اگر ہم فلاں سے پیچھے رہ گئے تو لوگ کیا کہیں گے۔ اس کا سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ اپنی خامیوں کا ’ادراک‘ کیجیے۔ اس ادراک کا احساس طلبا کو کون دلائے گا؟ یہ ادراک ’والدین‘ اور ’اساتذہ‘ ہی کرائیں گے۔ ادراک کے بعد حل کیا ہوگا؟ ان خامیوں کا حل بتایا جائے، طریقے بتائے جائیں تاکہ مستقبل میں مزید بہتری آ سکے۔ اس ادراک کے بعد جب وہ کمرۂ امتحان میں جائیں گے تو انہیں اپنی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہوگا اور شوق و جذبہ سے مسابقتی دوڑ کی قید سے آزاد ہوکر مسابقتی دوڑ کے ’چمن‘ میں شامل ہوجائیں گے
چوتھا چمن، حال میں رہنا: طلبا کو یہ خوف کہ وہ فیل ہو گئے تو ’مستقبل‘ پر کیا اثر پڑے گا؟ انسان اپنی تیاریاں مستقبل کے حوالے سے کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح طلبا پر بھی اپنے پورے تعلیمی کیریئر میں آنے والے ’مستقبل‘ کے اندیشے و خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس مسئلے کے حل کےلیے ’والدین‘ اور ’اساتذہ‘ دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بچوں کو یہ باور کرایا جائے کہ مستقبل کی تیاری ضرور کریں لیکن پہلے اُنھیں ’حال‘ میں رہنا ہے۔ حال میں رہیں گے تو آگے بڑھیں گے۔ مستقبل کے خطرات کی فکر نہ کریں، اگر ’حال‘ میں اچھا کیا تو مستقبل خود ہی بننا شروع ہوجائے گا۔ یعنی کہ اپنی پڑھائی پر شوق و لگن کے ساتھ بھرپور توجہ دیں۔ جب طلبا کمرۂ امتحان میں اس ’زندان‘ سے نکلیں گے تو خود بہ خود ’حال‘ کے چمن میں پہنچ جائیں گے
اپنی زندگی کو آسان بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’وہ آسانیاں چاہتا ہے مشکلات نہیں‘ (البقرۃ : 185) ۔ تو پھر طلبا کو ان ’چہار زندان‘ سے نکال کر ’چہار چمن‘ میں لے آئیے تاکہ مستقبل میں ہمیں ’واقعی معمار‘ مل سکیں۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)