امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے فلوریڈا کے کیپ کینورل سے اپنا اب تک کا سب سے طاقتور خلائی جہاز خلا میں روانہ کر دیا ہے۔ ایک سو میٹر لمبی آرٹیمس خلائی گاڑی روشنی اور آواز کے شاندار امتزاج کے ساتھ خلا میں روانہ ہوئی۔اس کا مقصد ایک خلاباز کیپسول کو چاند کی سمت روانہ کرنا تھا
اورین نامی اس خلائی جہاز میں اس مخصوص پرواز کے دوران تو کوئی انسان موجود نہیں ہے، لیکن اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو مستقبل میں عام لوگوں کے چاند کا سفر ممکن ہو سکے گا
بدھ کے روز یہ پرواز اگست اور ستمبر میں دو مرتبہ کی جانے والی کوششوں کے بعد ممکن ہو سکی، جو تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے عین وقت پر روک دی گئی تھیں
لیکن اس مرتبہ ایسے تکنیکی مسائل پر قابو پا لیا گیا اور خلائی لانچ سسٹم کو، جسے اکثر راکٹ کہا جاتا ہے، مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر سینتالیس منٹ پر کینیڈی سپیس سینٹر سے چاند کی جانب روانہ کر دیا گیا
اس موقع پر ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”یہ سب سے بڑا شعلہ ہے، جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور یہ سب سے زوردار اور گرج دار آواز تھی جو میں نے آج سنی ہے۔ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ ہم نے آج رات جو دیکھا وہ بہترین تھا۔ لیکن ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ یہ صرف ایک آزمائشی پرواز ہے“
اورین کیپسول کو چاند کے درست راستے پر لے جانے کے لیے راکٹ کو خلا میں کئی کام کرنے پڑے۔ ناسا کے ایس ایل ایس پروگرام مینیجر جان ہنی کٹ نے کہا کہ سبھی کام ’شاندار طریقے سے‘ سر انجام پائے
یہ جہاز اب اپنے یورپی پروپلشن موڈیول پر انحصار کرے گا تاکہ بقیہ مشن پر اسے محفوظ طریقے سے چلایا جا سکے
یورپی خلائی ایجنسی کے انسانی خلائی پرواز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ پارکر نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’جب ہم اس پرواز کی نوک پلک درست کر رہے ہوں گے تو ہمارے سروس موڈیول کے ذریعے بھی کچھ اہم کام ہوں گے۔‘
’جب ہم چاند کے گرد اس انتہائی دلچسپ راستے میں مدار میں داخل ہوں گے تو وہ بہت زبردست لمحات ہوں گے۔ ہم پہلی مرتبہ چاند سے بہت آگے جا رہے ہیں۔‘
ناسا دسمبر میں اپالو 17 کی پچاسویں سالگرہ منائے گا، جب آخری بار انسانوں نے چاند پر چہل قدمی کی تھی
ناسا اپنے نئے پروگرام کو آرٹیمس (یونانی افسانوں میں اپولو کی جڑواں بہن) کہہ رہا ہے۔ ناسا اگلے دس برس کے دوران پہلے سے زیادہ پیچیدہ مشنوں کی ایک سیریز کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس کے نتیجے میں زمین کے اس سیٹلائٹ یعنی چاند پر زیادہ پائیدار طریقے سے انسانوں کا رہنا، رہائش گاہوں کی تعمیر اور خلائی گاڑیوں کا زیادہ استعمال ممکن ہو سکے
اس کے علاوہ چاند کے مدار میں ایک چھوٹا خلائی سٹیشن بھی بنایا جا سکے۔ ناسا کو امید ہے کہ یہ ایک نئے زمانے کے لیے ایک نئی تحریک پیدا کرے گا
ناسا نے وعدہ کیا ہے کہ خواتین اور دوسرے رنگ و نسل کے لوگ ان کوششوں میں شامل کیے جائیں گے، وہ سب جو پچاس سال قبل نہیں ہوا تھا
خلاباز جیسیکا میئر کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سے خلاباز بننا چاہتی تھی جب وہ پانچ سال کی تھیں ’کسی بھی ایسے شخص کے لیے جس کا کوئی خواب یا کسی قسم کی تمنا ہو۔ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر دوسرے لوگ یہ کام کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔‘
اورین کو چھبیس دن کے سفر پر بھیجا جا رہا ہے، جو اسے چاند کے مدار کے دور دراز حصوں میں لے جائے گا
یہ کیپسول چاند کی سطح سے محض ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ جبکہ زمین سے اس کا سب سے زیادہ فاصلہ ستر ہزار کلومیٹر تک ہوگا۔ کوئی بھی ایسا خلائی جہاز جو انسانوں کو لے جانے کے قابل ہو زمین سے اتنے زیادہ فاصلے پر کبھی نہیں گیا ہے
یہ کیپسول 11 دسمبر کو زمین پر واپس آئے گا یعنی اب سے تقریباً ساڑھے تین ہفتے بعد۔ اس وقت اس پورے مشن کے سب سے اہم کام کیے جائیں گے
انجینئرز یہ جاننے کے لیے سب سے زیادہ فکر مند ہیں کہ اورین کی ہیٹ شیلڈ کرہ ارض کی فضا میں دوبارہ داخل ہونے پر شدید درجہ حرارت کا مقابلہ کر سکے گی
واپسی پر کیپسول کی رفتار بہت تیز ہو گی۔ یہ اڑتیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا، جو آواز کی رفتار سے بتیس گنا زیادہ ہے
اس کے اندر کی ڈھال کو شدید حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا جو تین ہزار سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا
برطانیہ بھی آرٹیمس ایڈونچر میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور یہ صرف یورپی سپیس ایجنسی کے رکن کے طور پر نہیں ہے
بدھ کو برطانیہ کے علاقے کارن وال میں گون ہیلی ارتھ سٹیشن نے اورین جہاز کا ریڈیو سگنل پکڑا۔ کیپسول کے خلا میں سفر کے دوران اس سٹیشن نے فریکوئنسز میں تبدیلیوں کا تجزیہ کیا اور اس طرح ناسا کی مدد کی کہ وہ اس خلائی گاڑی کی رفتار اور راستے کا درست اندازہ لگا سکے
گون ہیلی ان دس چھوٹے سیٹلائٹس میں سے چھ کو کمانڈ بھیجے گا جنھیں ایس ایل ایس راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا تھا۔