گلگت بلتستان کے علاقے سوست میں گذشتہ دنوں برفانی چیتے نے سات بھیڑیں مار دیں۔ مقامی افراد نے وائلڈ لائف والوں کو مطلع کیا جنہوں نے اس برفانی چیتے کی نگرانی شروع کر دی تاکہ کوئی اور اس قسم کا واقعہ پیش نہ آئے
یہ برفانی چیتا اگلے روز دوبارہ اسی جگہ واپس آیا اور اس بار اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ گلگت بلتستان کے محکمہ وائلڈ لائف کی انتھک کوششوں کا یہ نتیجہ ہے کہ مقامی افراد نے اس معدوم ہوتے جانور کو مارنے کے بجائے محکمے کو اطلاع دی
چترال اور گلگت بلتستان کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہندو کش، ہمالیہ اور قراقرم پہاڑی سلسلوں میں غیر قانونی درختوں کی کٹائی کے باعث جنگلات میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے برفانی چیتوں کی خوراک میں کمی ہوئی ہے اور یہ چیتے اب خوراک کی تلاش میں نچلے علاقوں میں داخل ہو جاتے ہیں
ان کے مطابق غیر معمولی سیلاب اور بارشوں کے باعث مقامی افراد اپنے مویشی لے کر بہتر چراہ گاہوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ چراہ گاہیں برفانی چیتوں کی مسکن ہوں
ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں لگ بھگ دو سو برفانی چیتے موجود ہیں لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے اور منظم تحقیق کی عدم موجودگی کے باعث ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے
ایک طرف جہاں انسانی عمل دخل کے باعث ان کے مسکن سکڑتے جا رہے ہیں وہیں مومسیاتی تبدیلی بھی ان پر اثر انداز ہو رہی ہے
برفانی چیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے مطابق مومسیاتی تبدیلی کے مسکن میں کمی واقع ہو رہی ہے اور شمالی علاقہ جات میں ان کے مسکن کافی حد تک کم ہوئے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ مومسیاتی تبدیلی اور انسانی عمل دخل کے باعث برفانی چیتے شمال کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جس کے باعث یہ جانور پاکستان میں ناپید ہو جائے گا
چند دہائیوں قبل برفانی چیتا سوات اور دیر کے علاقوں میں بھی پایا جاتا تھا لیکن اب یہ صرف شمالی علقہ جات میں غذر، ہنزہ، استور اور گھانچے کے علاقوں ہی میں پایا جاتا ہے
برفانی چیتوں کا مسکن بلند و بالا برف سے ڈھکے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایشیا میں دو ملین مربع کلومیٹر میں پائے جاتے ہیں۔ اس جانور کا مسکن درختوں سے اوپر کے علاقے میں ہوتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافے سے ان کے مسکن سکڑتے جا رہے ہیں
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف پگھل رہی ہے اور درختوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث برفانی چیتوں کو مزید اونچائی پر جانا پڑ رہا ہے
سیٹیلائٹس سے لی گئی تصاویر پر مبنی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گلیشیئر جھیل کے حجم میں 150 مکعب کلومیٹر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 1994 اور 2017 کے درمیان دنیا کے گلیشیئر جھیلوں سے 65 کھرب ٹن پانی کا اخراج ہوا ہے
گذشتہ ایک سو سال میں سمندر کی سطح میں اضافے کا 35 فیصد حصہ گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث ہوا
ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قراقرم گلیشیئرز کی گذشتہ چالیس سال کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بڑے ہوتے ہوئے گلیشیئرز کے گلیشیئر جھیل میں بدل جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگرچہ یہ جھیلیں تازہ پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن جب ان کا بند ٹوٹتا ہے تو بہت تباہی مچاتے ہیں
ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے مسکن میں اوسطاً 30 فیصد کمی واقع ہو گی۔ برفانی چیتوں کے لیے 30 فیصد کمی کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے کیونکہ ہر ایک برفانی چیتے کو ایک بڑا علاقہ درکار ہوتا ہے
موسمیاتی تبدیلی اور اس کے باعث مساکین میں کمی سے ان کے شکار میں بھی کمی واقع ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ایلپائن ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہو گا جس کی وجہ سے چرنے کے لیے آنے والے جانوروں میں بھی کمی واقع ہو گی جس سے برفانی چیتے کے شکار میں کمی ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی سے اس علاقے کا لینڈ سکیپ متاثر ہو رہا ہے
ایک طرف درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف جلدی پگھل رہی ہے۔ برف پگھلنے کی وجہ سے سورج کی شعائیں ریفلیکٹ نہیں ہوتیں اور اس وجہ سے برفانی چیتے کے شکار کے لیے ایک تو غذا کی کمی ہو رہی ہے اور دوسرا پانی کی
2020 میں عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ فنڈ نے برفانی چیتے کی ریسرچ کے سو سال پر ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان نے اس جانور کے کُل مساکین کا صرف 11 فیصد حصے کا سروے کیا ہے جس کے باعث پاکستان ان کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہے
دوسری جانب دیگر ممالک نے صرف 23 فیصد مساکین کا سروے کیا ہے جبکہ اب بھی 17 لاکھ مربع کلومیٹر کا مسکن ہے جس کا کبھی سروے ہی نہیں کیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ ہے کہ یہ مسکن خطرناک پہاڑوں پر ہے
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسکن کے حوالے سے کُل تحقیق میں سے صرف تین فیصد تحقیق میں جدید سائنسی طریقہ استعمال کیا گیا ہے
پاکستان میں برفانی چیتے کا مسکن تقریباً 80 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ برفانی چیتے کی عالمی رینج کا ساڑھے چار فیصد ہے
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ان مسکن کے محض 11سروے کیے گئے ہیں جو کہ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیائی ممالک میں کیے جانے والے سروے کا صرف 11 فیصد بنتا ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے سائنسی طریقے سے تحقیق کی جائے تاکہ برفانی چیتوں کی صحیح تعداد معلوم کی جا سکے
پاکستانی حکومت کی یہ کبھی بھی ترجیح نہیں رہی کہ ناپید ہوتے برفانی چیتوں کے بارے میں تحقیق کی جائے
موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا
اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے
دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں
موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی
ہمارا سیارہ بیس سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہوگا
موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں جیسے جیسے زیادہ ہوتی جائیں گی ویسے ویسے جنگلی حیات ہجرت کریں گی یا معدوم ہو جائیں گی
جنگلی حیات کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جنگلات اور جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے جس پر من و عن عمل کیا جائے تاکہ برفانی چیتوں کے ساتھ ساتھ دیگر جنگلی حیات کو محفوظ کیا جا سکے اور انہیں معدومیت کی جانب نہ دھکیلیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)