پاکستان میں موروثی سیاست کو فروغ دینے پر نون لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی تو ہمیشہ سے ہی تنقید کی زد میں رہی ہیں لیکن اب حکومت میں ان جماعتوں کی اتحادی جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی اقربا پروری کے الزامات کا سامنا ہے
واضح رہے کہ اس کی وجہ مولانا فضل الرحمان کے سمدھی حاجی غلام علی کی بطور گورنر خیبر پختوانخواہ تعیناتی ہے
یوں تو جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) ہمیشہ سے ایک نظریاتی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی آئی ہے۔ تاہم اب اس کے ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس پوری جماعت میں نظریاتی لوگ صرف مولانا فضل الرحمان کے رشتے داروں ہی میں ہیں
ماضی میں جمعیت سے وابستہ رہنے والے کچھ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ اسی عمل کی وجہ سے جمعیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی
جے یو آئی کے سابق رہنما اور سینیٹر حافظ حسین احمد کہتے ہیں ”مولانا رشتے داروں اور دوستوں کو نوازنے میں مصروف ہیں۔ ان کے بیٹے اسعد وفاقی وزیر ہیں جبکہ ان کے سگے بھائی مولانا عطاءالرحمان نہ صرف سینیٹر ہیں، بلکہ وہ جمعیت علماء اسلام کے خیبرپختونخوا میں امیر بھی ہیں۔ دوسرے بھائی لطف الرحمان کے پی اسمبلی کے رکن اور اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں جمیعت کے امیر بھی ہیں۔ حاجی غلام علی مولانا فضل الرحمن کے سمدھی ہیں۔ مولانا کی سالی شاہدہ اختر علی رکنِ قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ پشاور کا میئر بھی مولانا کا رشتہ دار ہے، جبکہ مولانا کے انتہائی قریبی دوست اکرم درانی کا بیٹا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہے۔‘‘
حافظ حسین احمد نے کہا کہ مولانا کی اقربا پروری کے خلاف آواز اٹھانے پر ہی انہیں اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کو غیر جمہوری طریقے سے پارٹی سے نکال باہر کیا گیا
حافظ حسین احمد کا کہنا ہے ”مولانا نے پارٹی میں مشاورت کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ ماضی میں ضلعی پارٹی رکن صوبائی اسمبلی، رکن قومی اسمبلی، سینیٹر اور دوسرے منتخب نمائندوں کو نامزد کرتی تھی اور اپنی سفارشات کو صوبائی قیادت کے پاس بھیج دیا جاتا تھا۔ اگر ان سفارشات کے برعکس کوئی اقدام اٹھایا جاتا تھا تو پھر مرکز میں اپیل کی جاتی تھی لیکن اب مولانا فضل الرحمان نے یہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔‘‘
جے یو آئی کے سابق رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ”جے یو آئی کے سربراہ نے اپنی مرضی سے ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز بنائے“
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاستدان کبھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھتے اور ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والے اپنے وفادار کارکنان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے ”مولانا فضل الرحمن نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں پر خاندانی سیاست نے اتنی جڑیں پکڑ لی ہیں کہ اب خاندانوں کے بغیر سیاست کرنا ہی مشکل ہے۔ نواز شریف نے اپنے گھرانے کے کئی افراد کو پارٹی اور حکومت میں اہم عہدے دلوائے۔ پیپلز پارٹی نے بھی خاندانی بادشاہت کو فروغ دیا اور تمام اہم عہدے خاندان کے پاس رہے۔ محمود خان اچکزئی اور ولی خان کے خاندانوں نے بھی تقریباً یہی کام کیا اور اب مولانا فضل الرحمن نے تو حد ہی کر دی ہے۔‘‘
جمعیت کے باغی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس اقربا پروری سے فضل الرحمان کو سیاسی نقصان ہو رہا ہے ہے
واضح رہے کہ اس سلسلے میں ایک نام مولانا محمد خان شیرانی کا بھی ہے، جن کا شمار جمیعت علما اسلام (ف) کے سینئیر ترین رہنماؤں میں ہوتا تھا، تاہم اندرونی اختلافات کی وجہ سے اب وہ جے یو آئی کے دیگر ناراض رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنی جماعت بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں
حافظ حسین احمد کا کہنا ہے ”لوگ جے یو آئی ایف کو چھوڑ رہے ہیں۔ مولانا شیرانی، گل نصیب اور میں نے جمیعت علماء اسلام کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ ہم پشاور، نوشہرہ، بلوچستان، پنجاب اور پورے ملک میں اپنے دفاتر کھول رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جمیعت سے مزید لوگ چھوڑ کر ہماری طرف آئیں گے کیونکہ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیاست کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
تاہم سرفراز خان کا کہنا ہے ”اس سے فضل الرحمن کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ان کی پارٹی پر بھی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ انفرادی طور پر بھی بہت مضبوط آدمی ہیں جبکہ کارکنان اور مدارس بھی ان کے ساتھ ہیں۔‘‘
جہاں، سوشل میڈیا پر اس تقرری پر تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کئی نامور صحافی مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، وہیں جمعیت علماء اسلام کا مؤقف ہے کہ تمام تقرریاں میرٹ پر ہوئی ہیں
جمیعت کی مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ”لوگ غلام علی پر تنقید کر رہے ہیں لیکن غلام علی 1979ء سے جمیعت کے ساتھ ہیں۔ بالکل اسی طرح عطاءالرحمان اور لطف رحمان بھی روز اول سے جمیعت کے ساتھ ہیں۔ ان کو ٹکٹ دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ مفتی محمود کے گھرانے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے علی امین گنڈا پور کے مقابلے میں مفتی محمود کے گھرانے سے ہٹ کر کسی کو ٹکٹ دیا تھا اور وہاں ہمیں شکست ہوئی۔‘‘
شاہدہ اختر علی کو ٹکٹ دینے کا دفاع کرتے ہوئے جلال الدین کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں جب اچانک خواتین کی نشستیں بڑھائی گئیں تو اس وقت جمیعت کے پاس بڑی تعداد میں خواتین نہیں تھی۔ جلال الدین نے کہا، ”ہم نے کئی لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی بہنوں، بیٹیوں یا خواتین رشتے داروں کے نام اراکین اسمبلی کے لیے دیں لیکن لوگ نام دینے کے لیے تیار نہیں تھے تو مجبوراﹰ ہمیں پھر شاہدہ اختر علی کو نامزد کرنا پڑا۔‘‘
جے یو آئی کے اس رہنما کا کہنا تھا کہ یہ نامزدگی بھی خلاف میرٹ نہیں ہے کیوں کہ شاہدہ اختر علی بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ٹکٹ دینے کی وجہ مولانا فضل الرحمٰن سے رشتہ داری قطعا نہیں تھی۔