جرمن حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جرمن شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو آسان بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ گزشتہ برس حکومت سازی کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق شہریت کے حصول کی تمام تر شرائط پورا کرنے والوں کو پانچ سال یا ”انضمام کی غیر معمولی کامیابیوں‘‘ کے ساتھ تین سال میں بھی جرمن شہریت دی جائے گی
اس کے علاوہ جرمنی میں پیدا ہونے والے بچے، جن کے والدین میں سے کوئی ایک بھی پانچ سال سے جرمنی میں قانونی طور پر مقیم ہو، انہیں بھی جرمن شہریت دے دی جائے گی
جبکہ برلن حکومت دُوہری شہریت پر لگی پابندیاں بھی ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے
جرمنی کی سماجی طور پر لبرل سمجھی جانے والی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جرمنی شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو آسان بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے
دوسری جانب یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں قدامت پسند اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو اس معاملے میں شدید مخالفت کا سامنا بھی ہے
جرمن چانسلر اولاف شولس نے ہفتہ 26 نومبر کو ایک وڈیو پیغام میں کہا ”جرمنی طویل عرصے سے بہت سے لوگوں کے لیے امید کا محور ملک بن چکا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وہ باشندے جو جرمنی آکر یہاں کی جڑوں سے پیوست ہو گئے ہیں وہ اب جرمن شہریت لینے کا فیصلہ کر رہے ہیں“
جرمن چانسلر نے مزید کہا ”جرمنی کو ان تمام عظیم خواتین اور مردوں کو شہریت دینے کے لیے ضوابط پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور یہ موجودہ سہ جماعتی مخلوط حکومت کی جرمن شہریت دینے کے حوالے سے جدید اصلاحات کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ موجودہ مخلوط حکومت میں سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، ماحولیات دوست گرین پارٹی اور کاروبار کی حامی فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی شامل ہے۔ ان تینوں نے گزشتہ دسمبر میں وزارتیں سنبھالنے کے ساتھ ہی جرمن شہریت کے قوانین کو آسان بنانے کے لیے اصلاحات کا فیصلہ کیا تھا۔ وزارت داخلہ نے گزشتہ جمعے کو کہا تھا کہ مسودہ قانون ”تقریباً تیار ہے۔‘‘
◼️دوہری شہریت کی اجازت
اصولی طور پر جرمنی میں یورپی یونین میں شامل ممالک اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ تمام دیگر ممالک کے باشندوں کو دوہری شہریترکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یعنی اب تک یورپی یونین کے رکن ممالک اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو جرمن شہریت لینے کے لیے اپنی سابقہ شہریت ختم کرنا پڑتی ہے، تاہم اس قانون میں کچھ چھوٹ بھی رکھی گئی تھی
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر یہ دلیل دیتی ہیں کہ شہریت کے اہل ہونے کے لیے مختص وقت کے انتظار میں کمی لانا از خود ”انضمام کی طرف رغبت بڑھانے کے ”مترادف‘‘ ہے۔ جمعے کو انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ”اس کا مقصد اس حقیقت کی عکاسی کرنا ہے کہ ہم متنوع، امیگریشن کا جدید ملک ہیں، اور میرے خیال میں قانون سازی سے اس کا اظہار ہونا چاہیے۔‘‘
اپوزیشن کا موقف
دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے اپوزیشن یونین بلاک حکومت کے نیچرلائزیشن یا شہریت کے حصول کے قوانین کو آسان کرنے کے منصوبوں کو مسترد کر دیا
جرمن روزنامہ ’بِلڈ‘ کو بیان دیتے ہوئے ایک سینیئر قدامت پسند قانون ساز الیکسانڈر ڈوبرنٹ نے کہا ”جرمن شہریت سستے داموں بیچنے سے انضمام کے عمل کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ اس کے برعکس غیر قانونی ہجرت کو تحریک ملے گی۔‘‘
اُدھر ’زؤڈ ڈوئچے فیرنزیہر‘ ZDF ٹیلی وژن چینل سے بات کرتے ہوئے کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور کرسچن سوشل یونین کے پارلیمانی دھڑے کے سربراہ تھورسٹن فرائی کا کہنا تھا ”شہریت کے اہل ہونے کے لیے پانچ سال بہت کم عرصہ ہے۔‘‘
جرمن شہریت حاصل کرنے والوں کی شرح
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 131,600 افراد نے جرمن شہریت حاصل کی۔ ان میں سے ایک چوتھائی دیگر یورپی شہری تھے
یہ تعداد اُس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فی صد زیادہ تھی۔ اس کی جزوی وجہ شامی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد تھی۔ جرمنی کی کل آبادی تقریباً 84 ملین ہے
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے کچھ منصوبوں کو پارلیمان کے ایوان بالا میں مشکلات اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ وہاں جرمنی کی تمام سولہ ریاستوں کی نمائندگی موجود ہے اور اولاف شولس کے اتحاد کو اکثریت پر کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ اس اصلاحاتی منصوبے میں شامل بے روزگاری الاؤنس کا قانون رواں ہفتے پاس ہونا ہے، یہ بھی آسان نہ ہوگا۔