اگلے اولمپکس 2024ع میں پیرس میں ہونے جا رہے ہیں، لیکن اولمپکس کی نشانیاں ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئی ہیں، جن میں سب سے عام نشانی سرخ رنگ کا ایک مسکاٹ یعنی کارٹون نما کھلونا اور سرخ رنگ کی ہی ایک مخروطی ٹوپی ہے، جسے جمہوریہ فرانس کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے
لیکن یہ بات جان کر یہ سوال ضرور ذہن میں کلبلاتا ہے کہ بھلا ایک کارٹون نما سرخ کھلونے اور سرخ مخروطی ٹوپی کا پیرس اولمپکس سے کیا تعلق ہے
آپ نے اکثر مغربی کمپنیوں اور بالخصوص ٹیموں کے لوگو میں کسی کارٹون نما چیز کا نشان ضرور دیکھا ہوگا۔خاص طور پر جب دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہو تو ان کا مسکاٹ وہاں اچھل کود کر کے اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے نظر آتا ہے
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف ان کا علامتی یا شناختی نشان ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے’نیک شگون‘ بھی مانا جاتا ہے
آپ بلکل ٹھیک سمجھے! پیرس اولمپکس کے منتظمین نے بھی اسی سوچ کے ساتھ کارٹون نما سرخ کھلونے اور سرخ مخروطی ٹوپی کا انتخاب کیا ہے
پیرس اولمپکس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ جب وہ ان مقابلوں کی نمائندگی کے لیے کسی مسکاٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے تو وہ کسی جانور یا کسی دوسری مخلوق کا انتخاب نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ کوئی ایسی چیز سامنے لانا چاہتے تھے، جو بہتر طور پر پیرس اولمپکس میں فرانس کی نمائندگی کر سکے
پیرس اولمپکس مسکاٹ کو سرخ رنگ کے کپڑے سے بنایا گیا ہےاور اس کے اندر روئی بھری گئی ہے۔ جب کہ سرخ مخروطی ٹوپی کو آزادی کی علامت کے طور پر اپنایا گیا ہے
جیسے جیسے اولمپکس قریب آ رہے ہیں، سرخ مسکاٹ اور مخروطی ٹوپی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور کمپنیاں اس طلب کی وجہ سے خوب پیسہ بٹور رہی ہیں
لیکن اب ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، جس پر فرانس بھر میں خوب لے دے ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس بحث کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت کو بھی میدان میں اترنا پڑ گیا ہے
یہ مسئلہ ہے مسکاٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کا۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت فرانس میں صرف دو کمپنیاں ’گپسی ٹوائز‘ اور ’ڈو ڈو ایٹ کمپنی‘ مسکاٹ تیار کر رہی ہیں۔ مگر وہ بھی جزوی طور پر، کیونکہ اس میں استعمال ہونے والا سرخ کپڑا تو فرانس میں بنتا ہے، جبکہ مسکاٹ بنانے کا دوسرا سامان چین سے آتا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں مجموعی طور پر فرانس کی طلب کا محض آٹھ فی صد پورا کر پا رہی ہیں، جبکہ باقی بانوے فی صد مسکاٹ اور ٹوپیاں چین سے آ رہی ہیں
اس معاملے کو لے کر ان دنوں فرانس میں یہ دلچسپ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا ہم ’اپنی نمائندگی کرنے والی اور نیک شکون کا اظہار کرنے والی چیز‘ بھی خود نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم اپنی سرخ مخروطی ٹوپی کے لیے بھی چین کے محتاج ہیں
واضح رہے کہ چین اس وقت معیشت کے میدان کی بڑی طاقت امریکہ کو ٹکر دے رہا ہے ۔ چین میں بنائی جانے والی اشیا دنیا کے ہر براعظم، ہر ملک کے ہر شہر اور قصبے میں کثرت سے موجود ہیں۔ کاروباری ذہن رکھنے والے چینی ہر علاقے کے لوگوں کی طلب، مالی حیثیت اور نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں اور وہاں کی مارکیٹوں میں اپنی مصنوعات اس طرح پھیلا دیتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا
یہی وجہ ہے کہ چند برسوں سے ترقی یافتہ ممالک چین کے پھیلتے ہوئے تجارتی حجم سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان کے اپنے ملک کی منڈیاں بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہیں اور وہ اپنی معیشت اور روزگار کے تحفظ کے لیے چینی مصنوعات کی یلغار کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں
اسی طرح فرانس میں بھی سرخ مسکاٹ خریدنے اور سرخ مخروطی ٹوپیاں پہننے والے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر انہیں ہم اپنے ملک میں کیوں نہیں بنا سکتے؟
اب اس بحث میں فرانس کی حکومت بھی شامل ہو گئی ہے۔ حال ہی میں حکومت کے ایک ترجمان اولیور ویرین نے ٹیلی وژن کے فرانس ٹو چینل پر کہا ”اصل میں یہ ایک پیداواری مسئلہ ہے۔ ہم بھی شدت سے چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے ملک میں تیار ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنی فیکٹریاں اور وسائل موجود نہیں ہیں کہ چند مہینوں میں ہم بیس لاکھ سے زیادہ مسکاٹ بنا سکیں۔ لیکن ہم مستقبل میں اپنے کاروبار ملک میں واپس لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔“
ان اولمپکس کی نمائندگی کے لیے متعارف کرائی جانے والی مخروطی شکل کی سرخ ٹوپی کو ’فریجیئن کیپ‘ کہتے ہیں۔ مخروطی شکل کی یہ ٹوپی ایک طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس سے ملتی جلتی ٹوپیاں فارس، بلقان ، تھریس اور ڈاسیا وغیرہ میں پہنی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم تاریخ میں ان کا تعلق یونانی دور سے جا ملتا ہے، جہاں انہیں آزاد ہونے والے غلام پہنتے تھے۔ فرانس میں یہ ٹوپی آزادی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اسی لیے اسے اولمپکس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پیرس اولمپکس جولائی تا اگست 2024 میں اور پیرا اولمپکس اگست تا ستمبر میں ہوں گے۔