سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور سندھ بلوچستان سے استعفوں کے اعلان کے بعد ملک میں ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے
عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کو سیاسی تجزیہ نگار ’ماسٹر قسٹروک‘ قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی بند گلی میں جاتی ہوئی سیاست کو نیا راستہ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض تجزیہ نگار فی الحال اس اعلان پر پوری طرح عمل کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں
جبکہ پی ٹی آئی نے جمعے کو خیبر پختونخوا جبکہ ہفتے کو پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے، جس کے بعد عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اعلان کریں گے۔ پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلے کی توثیق بھی ہو چکی ہے
دوسری جانب وفاقی حکومت نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو دوبارہ عہدہ سنبھالتے ہی صوبائی اسمبلیوں کو ممکنہ تحلیل سے بچانے کے لیے اہم اقدامات شروع کردیے ہیں، اس سلسلے میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا استعفا نامنظور کرتے ہوئے انہیں دوبارہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی گئی تھی، جس کے بعد انہیں عہدہ سنبھالتے ہی اس سلسلے میں اہم ٹاسک دے دیا گیا ہے
حکومت پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے بیانات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے، جبکہ اس سلسلے میں جاری سیاسی سرگرمیوں، اہم ملاقاتوں اور رابطوں میں پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے ممکنہ آپشنز پر غور بھی کیا گیا ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد دونوں صوبوں میں گورنر راج کے نفاذ کے ممکنہ آپشن کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی زیر غور ہے کہ اگر اسمبلی اجلاس جاری ہو تو پھر کیسے تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے۔ تحریک عدم اعتماد کے علاوہ اعتماد کا ووٹ لینے کے آپشنز پر بھی غور ہوگا
اتحادی جماعتوں کی جانب سے اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ پنجاب حکومت کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو کیا اسمبلی تحلیل ہوسکتی ہے؟ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے پیش نظر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی حکومت نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو ٹاسک دے دیا ہے
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور نگراں حکومت کا قیام
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے ”صوبوں میں نگراں حکومت کا فیصلہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مشاورت سے کیا جائے گا۔ اس وقت اپوزیشن کی کوشش تو یہی ہے کہ اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جائے لیکن نگران حکومت قائم کرنے کے مرحلے کا آغاز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد شروع ہوگا“
انہوں نے کہا ”جب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی تو پھر قائد حزب اختلاف اور وزیراعلٰی کی طرف سے دیے گئے ناموں پر مشاورت ہوگی، ڈیڈلاک کی صورت میں معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا جائے گا، جس کے ممبران اپوزیشن اور حکومت سے برابری کی بنیاد پر لیے جائیں گے“
احمد بلال محبوب کے مطابق کمیٹی میں بھی ڈیڈلاک کی صورت میں الیکشن کمیشن دیے گئے کسی نام پر خود فیصلہ کر لے گا اور گورنر صوبے میں نگراں حکومت کا اعلان کر دیں گے
انہوں نے بتایا ”ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی علیحدہ علیحدہ تحلیل ہو۔ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں کچھ آئینی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے“
جبکہ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد سمجھتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں وفاق کو حکومتی امور چلانے میں مشکلات تو ہوں گی، لیکن آئینی طور پر صوبوں کے ساتھ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے
اس سوال پر کہ کیا ملک میں پہلی بار صوبائی اور قومی اسمبلی کے علیحدہ علیحدہ انتخابات ہوں گے، احمد بلال محبوب کا کہنا تھا ”پڑوسی ملک بھارت میں وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات علیحدہ ہوتے ہیں، اگر صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تین ماہ کے اندر کروانا ہوں گے اور اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوگی“
انہوں نے کہا ”ایسی صورت میں پاکستان میں بھی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر علیحدہ علیحدہ انتخابات ہوں گے جس سے اضافی پندرہ سے بیس ارب روپے کے اخراجات آئیں گے، جو ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایک مشکل کام ہوگا“
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل پر اپنے ایک اعلامیے میں کہہ چکا ہے کہ استعفے دیے گئے تو ان نشستوں پر الیکشن کرا دیے جائیں گے
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق ”موجودہ صورتحال میں بظاہر لگتا ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل نہیں کرے گی بلکہ اس معاملے سے فوری انتخابات کے لیے دباؤ بڑھایا جائے گا“
’تخت پنجاب‘ کے دوبارہ حصول کے لئے شہباز شریف نے آصف زرداری سے مدد طلب کر لی
پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے پیش نظر وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے منگل کو ملاقات کی، یہ گزشتہ آٹھ دنوں کے دوران دونوں رہنماؤں کی دوسری ملاقات تھی
توقع ہے کہ وزیر اعظم آنے والے دنوں میں حکمران اتحاد میں شامل دیگر اتحادیوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ دونوں اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل پر تبادلہ خیال اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے
وزیراعظم آفس کے مطابق ملاقات وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی جس میں دونوں رہنماؤں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا
پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آصف زرداری کو پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت دوبارہ قائم کرنے کا کام سونپا ہے
مشکل ترین حالات میں ’حل‘ نکالنے کے لیے شہرت رکھنے والے سابق صدر جلد ہی لاہور کا سفر کریں گے
اس ملاقات سے قبل زرداری نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے خود ساختہ جلاوطن قائد نواز شریف کی آواز تصور کیے جانے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے بھی ملاقات کی۔