ملتانی مٹی (Fuller’s earth) ایک قسم کی مٹی ہے۔ اس کا استعمال پرانے زمانے سے بال دھونے وغیرہ کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ جدید دور میں بھی اسے غسل کرنے، چہرے پر نکھار لانے، وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلدی بیماری کو ختم کرنے اور جلد کو ملائم رکھنے میں بہت مددگار ہے۔ جبکہ حاملہ عورتیں بھی یہ مٹی کھانے کے لیے استعمال کرتی ہیں
برطانیہ میں اسے اون کی صنعت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ قدیم دور سے ہی ملتانی مٹی کا استعمال بہتری کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ملتانی مٹی کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ جدید دور میں بھی اس کا استعمال خوبصورتی کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ملتاني مٹی جلد سے گندگی صاف کرنے کے لیے بہت موثر ہے اور اس میں کوئی مضر اثرات بھی نہیں ہیں
یہ مٹی ایلومینیم اور میگنیشیم سلیکیٹ سے بھرپور ہے۔ اس کی بیرونی ساخت عام مٹی سے کافی ملتی جلتی ہے۔ تاہم، اس مشہور مٹی میں پانی کی مقدار زیادہ ہے اور یہ زیادہ باریک ہے۔
ملتانی مٹی مختلف رنگوں میں آتی ہے، جیسے سفید، پیلا اور بھورا۔ قدیم زمانے سے، ملتانی مٹی جڑی بوٹیوں کی مصنوعات میں ایک قیمتی جزو رہا ہے اور اسے کاسمیٹکس کے شعبے میں اپنے مفید نتائج کے لیے جانا جاتا ہے
پاکستان میں اگرچہ ہلکی زرد رنگ کی نرم پتھروں کی شکل میں دستیاب مٹی، جسے سندھی میں ’مَیٹ‘ کہتے ہیں، سندھ میں مخصوص پہاڑوں کے دامن سے سرنگیں کھود کر نکالی جاتی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ’ملتانی مٹی‘ بھی کہا جاتا ہے
عرصہ دراز سے اسے بال دھونے اور جلدی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جبکہ لکھائی کے لیے تختیاں بنانے میں بھی اس کا استعمال بہت عام رہا ہے
اس مٹی میں تیل اور پانی کو جذب کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے، دورِ جدید میں بھی چہرے پر نکھار لانے کے لیے اس کے ماسک کا استعمال بہت عام ہے
سندھ کے علاقے خیرپور اور اطراف میں واقع مخصوص پہاڑوں سے یہ مٹی نکالی جاتی ہے
مقامی سماجی رہنما زوار حسین کاندھڑو بتاتے ظیں ”خیرپور کے زرد پہاڑوں کے سلسلے میں بیشر مقامات کے دامن میں سرنگیں کھود کر زرد مٹی نکالی جاتی ہے، جسے سندھی زبان میں ’مَیٹ‘ کہا جاتا ہے۔“
اس مٹی میں بہت سی فائدہ مند معدنیات پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اسے صنعتی اور دیگر اشیا میں استعمال میں کیا جاتا ہے، جبکہ اسے ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے
زوار کاندھڑو نے بتایا کہ محکمہ معدنیات سندھ کی جانب سے ان پہاڑوں کو لیز پر دیا جاتا ہے، جسے بااثر افراد ہی حاصل کر پاتے ہیں، جو اس میٹ کو نکالنے کے لیے مقامی مزدوروں کو بہت کم اجرت پر کام دیتے ہیں جبکہ یہ مزدور بہت غیر محفوظ انداز میں کام پر مجبور ہیں
انہوں نے مزید بتایا ”اس علاقے کی میٹ اپنی کوالٹی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ ملتان کے تاجروں نے یہاں سے مٹی نکال کر بیچنا شروع کی تو اس کا نام اسی لیے ’ملتانی مٹی‘ پڑ گیا ہے حالانکہ یہ ہمارے خیرپور سندھ کی معدنی مٹی ہے“
مقامی نوجوان کان کن پرویز احمد بتاتے ہیں ”پہاڑ کے دامن سے سرنگ کھودنے کے لیے بیس سے پچیس افراد پورا ہفتہ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے محنت کرتے ہیں، اس کے بعد کم از کم دو سو سے تین سو فٹ کے بعد میٹ نکلنا شروع ہوتی ہے“
انہوں نے بتایا ”سرنگ کے اندر روشنی کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہوتا، چراغ جلا کر روشنی کی جاتی ہے جبکہ گیلی مٹی کی وجہ سے بعض مقامات سے مٹی کے تودے گرتے ہیں، جس سے کان کنوں کو بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔“
پرویز احمد نے بتایا کہ کدال سے کھود کر ٹرالیوں کی مدد سے میٹ کو باہر نکالا جاتا ہے
ان کا کہنا تھا ”ہم ہفتہ بھر کام کریں تو بمشکل تین سے چار ہزار روپے مزدوری بنتی ہے، کیونکہ اس کا ریٹ بہت کم ہوتا ہے، اسے چند سو روپے فی من میں بیچا جاتا ہے۔‘
مقامی صحافی سیلم رضا شیخ کے مطابق ”خیرپور ضلع تیل، پتھر اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے مگر محکمہ معدنیات سندھ اس علاقے میں توجہ دینے کے بجائے مجرمانہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ میٹ اور دیگر پہاڑوں کو غیر مقامیوں کو لیز پر دیا جارہا ہے جو اس علاقوں میں ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں“
انہوں نے کہا ”لیز ہولڈرز نہ مزدوروں کو قواعد کے مطابق سہولیات دیتے ہیں اور نہ ہی کھدائی کے لیے کسی قسم کے ضوابط کا خیال رکھتے ہیں، جبکہ بعض مقامات پر تو لیز پر پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں کروایا جا رہا“
سکھر کے معروف ادیب اور شاعر محمد اطہر راجپوت ملتانی مٹی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تاریخ اور طب کی کتب میں اسے ملتانی مٹی ہی لکھا گیا ہے جبکہ بھارت میں بھی اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔