دنیا کی نظریں جب قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈکپ کی چکا چوند میں کھوئی ہوئی تھیں، اور وہ مشہور فٹبالرز کی شاندار مہارت اور ان کی جانب سے کیے گئے گولوں پر جشن منا رہے تھے، وہیں ان فٹبالرز کے جوتوں کی تیاری میں مصروف مزدور زندگی کے تلخ اوقات کا سامنا کر رہے تھے
ان ہی مزدوروں میں مافویو تھیٹا بھی شامل تھیں۔ وہ ان کے ساتھی میانمار کی ایک فیکٹری کے ملازم تھے، جو دنیا کے مشہور جوتوں کے برانڈ ’ایڈیڈاس‘ کے لیے فٹبال اور دیگر کھیلوں کے جوتے تیار کرتی ہے
جب بھی وہ فٹبال ورلڈکپ کے دوران دنیا کے مشہور فٹبال کھلاڑیوں کو اپنی فیکٹری میں تیار کردہ ڈیزائن کے جوتے پہنے دیکھتیں، تو وہ اکثر اپنے دوستوں اور خاندان کو فخر سے بتاتیں کہ ”یہ جوتے ہم نے تیار کیے ہیں“
اسی طرح میانمار میں گارمنٹس فیکٹری کے ہزاروں کارکنان ورلڈکپ کے دوران فٹبال کے لیجنڈز اور اپنی پسند کی ٹیموں کے لیے میچ کے دوران پہنی جانے والی مہنگی شرٹس بنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں
ان مزدورں نے فٹبال کی ٹیموں کے لیے ایڈیڈاس کے ملبوسات کی ایک سیریز بنائی ہے۔ ان میں ورلڈکپ کی فاتح ارجنٹینا کے لیونل میسی اور ان کے ساتھیوں کے پہننے والے جوتے بھی شامل ہیں
لیکن اب مافویو تھیٹا سمیت ان کے چھبیس ساتھیوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور اب یہ افراد ورلڈکپ کو بھول بھال کر اپنے روزگار کے لیے پریشان ہیں
دو ماہ قبل، ایڈیڈاس کے لیے ملبوسات بنانے والی فیکٹری کے سینکڑوں کارکنوں نے اپنی تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن فیکٹری انتظامیہ نے اس مطالبے کے چند روز بعد درجنوں ملازمین کو نوکری سے نکال دیا
ان مزدوروں کو فٹبال کھلاڑیوں کے لیے مہنگے ترین جوتے اور ملبوسات بنانے کے عوض یومیہ دو امریکی ڈالر سے بھی کم اجرت ملتی تھی
اس وقت دنیائے فٹبال پر راج کرنے والے لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو کی ایڈیڈاس جوتے پہنے اشتہاری تصاویر تو سب نے دیکھی ہوں گی، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ جوتے اور شرٹس میانمار کی شیئو پائتھا ٹاؤن میں پاؤنڈ فیکٹری میں بنے ہیں
اس فیکٹری کے ملازمین ورلڈ کپ میچوں کے دوران اپنے ہاتھ سے تیار کیے گئے جوتے مشہور کھلاڑیوں کے پیروں میں پہنے دیکھ کر فخر محسوس کرتے تھے۔ وہ جوتے جو میسی اور رونالڈو کے پیروں میں پہنے جانے کے بعد قیمتی بن جاتے ہیں، لیکن انہیں بنانے والے مزدوروں کے ہاتھ خالی ہی رہتے ہیں
اسی فیکٹری کے کومن من لاٹ نامی ایک ملازم، جو مانچسٹر یونائیٹڈ فٹبال کلب کے فین ہیں، بتاتے ہیں ”جب ڈولے مانچسٹر یونائیٹڈ واپس آئے تو مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ہماری فیکٹری کے ڈیزائن کردہ جوتے پہن رکھے تھے۔ میں نے ایک بار نیمار کو بھی ایک بار پی ایس جی میں کھیلتے ہوئے اپنی فیکٹری کے جوتے پہنے دیکھا تھا“
مافویوتھیٹا جب بھی کبھی اپنے والد کے ساتھ فٹبال میچ دیکھتے ہوئے کسی کھلاڑی کو اپنی فیکٹری کے تیار کردہ جوتے پہنتے دیکھتی ہیں تو اکثر انہیں ان جوتوں کی تیاری کے مراحل کے بارے میں بتاتی ہیں
کومن من کہتے ہیں ”یہ جوتے نہ صرف ان فٹبال کھلاڑیوں کی زندگیوں کے لیے اہم ہیں بلکہ ان فیکٹری ملازمین کی زندگیوں کے لیے بھی بہت اہم ہیں، جو انھیں تیار کرتے ہیں۔ یہ جوتے ان کی زندگی ہیں۔“
لیکن جب ان جوتوں کو اپنی زندگی کومن من کو ایڈیڈاس کے ایک جوتے کے جوڑے کی قیمت کے بارے میں پتا چلا تو اس قیمت کا موازنہ اپنی تنخواہ سے کر کے وہ حیران رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا ”ہماری ماہانہ تنخواہ ایک جوڑے جوتے کی قیمت کے بھی برابر نہیں ہے“
تب ان جوتوں کو اپنی زندگی کہنے والے کومن من سوچتے ہیں کہ شاید یہ جوتے ان کی زندگی سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں
میانمار لیبر یونین کے مطابق یہاں 4800 کیاٹس (میانمار کی کرنسی) یومیہ اجرت کے حساب سے فیکٹری ملازمین ماہانہ تقریباً دو لاکھ کیاٹس کماتے ہیں، جس میں ان کا اوور ٹائم بھی شامل ہوتا ہے
جب قطر میں فٹبال ورلڈکپ شروع ہوا تھا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے میانمار کے جوتے بنانے والی فیکٹری کے ملازمین کے حوالے سے خبر دی تھی، جسے دنیا بھر میں بہت توجہ ملی تھی
میانمار میں جوتے بنانے والے کارخانوں اور ان کے ملازمین کے مسائل اکتوبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوئے تھے، جب ورلڈکپ فٹبال کا آغاز ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم کا وقت باقی بچا تھا
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے چند ایسے ملازمین، جو روز مرہ اشیا کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات برداشت نہیں کر پا رہے تھے، نے لیبر یونین کے ذریعے یومیہ کم از کم اجرت چار ہزار آٹھ سو کیاٹس سے آٹھ ہزار کیاٹس تک بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا
ان کے بائیس مطالبات تھے، لیکن ان میں سب سے اہم یومیہ اجرت کو بڑھا کر آٹھ ہزار کیاٹس کرنا تھا۔ جب ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو کارخانوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جن پر قابو پانے کے لیے فوج کو آنا پڑا تھا
ان مظاہروں میں شریک افراد یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے ڈیوٹی پر موجود فوجی افسروں نے انییں ڈرایا تھا کہ ان کے خلاف دیگر شہریوں کی نسبت زیادہ سخت کارروائی ہوگی، کیونکہ شیئو پائتھا کا شہر مارشل لا خطے کا حصہ ہے
چھ سو سے زائد مظاہرین میں چھبیس مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جن میں میانمار کی ورکرز یونین کی صدر مافویو تیھٹا ون بھی شامل ہیں
مظاہروں کے دوران میانمار کے جوتے بنانے والے کارخانوں نے کہا تھا کہ تین روز تک غیر حاضری کے بعد واپس آنے والے افراد کو کام پر دوباہ رکھ لیا جائے گا اور جو اس کے بعد کام پر واپس نہیں آئے گا، اس کو نکال دیا جائے گا
مافویو تیھٹا کا کہنا تھا کہ جن ملازمین کو نوکریوں سے نکالا گیا تھا، انہوں نے محکمہ لیبر کے ذریعے دوبارہ نوکریوں کے لیے مذاکرات کیے تھے، لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکے
اس حوالے سے مذاکرات 8 دسمبر کو ختم ہوئے اور محکمہ لیبر کا کہنا تھا کہ اگر برخاست کیے جانے والے ملازمین چاہیں تو عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتے ہیں
نوکریوں کے نکالے جانے والے افراد اپنے کام پر واپس جانا چاہتے ہیں، لیکن اب تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ہے
پوری دنیا جس وقت بڑے بڑے کھلاڑیوں کو کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ میں ان مزدوروں کے تیار کردہ جوتے پہنے میدان میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی، مافویو تیھٹا اور ان کے ساتھی روزانہ گھنٹوں اپنے روزگار کی تلاش اور مذاکرات میں مصروف تھے، لیکن اس سب کے باوجود بھی انہوں نے ورلڈکپ سے مکمل منھ موڑے نہیں رکھا
ورلڈکپ میں برازیل کی ٹیم کی حامی مافویو تیٹھا کہتی ہیں ”جب کروشیا سے مقابلے کے بعد برازیل ورلڈکپ سے باہر ہو گیا تو میں نے نیمار کو روتے نہیں دیکھا، مگر مجھے ڈولائی کو روتے دیکھ کر برا لگا تھا“
کومن من لاٹ اگرچہ انگلینڈ کی ٹیم کے حامی نہیں ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے انگلینڈ کی شکست کے بعد ورلڈکپ میچز دیکھنے چھوڑ دیے تھے۔ وہ کہتے ہیں ”میرے پاس چائے خانہ جا کر میچ دیکھنے کے پیسے نہیں تھے اور میں اپنے فون پر موبائل ڈیٹا پر بھی میچ نہیں دیکھ سکتا تھا“
ان کے ایک ساتھ نوکری سے نکالے جانے والے کوڈی ییکیا کہتے ہیں ”جب میں نے فٹبال پچ پر ایڈیڈاس کے لوگوز دیکھے تو میں نے سوچا کہ دنیا کا مشہور ترین برانڈ کیا چھبیس افراد کی ’غلطی‘ کو معاف نہیں کر سکتا؟“
ان ملازمین کی معاونت کرنے والے ایک ملازم کے مطابق ایڈیڈاس کو ان چھبیس افراد کے نکالے جانے کا علم ہے اور وہ اس بارے میں تفتیش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایڈیڈاس نے ان افراد کو نوکری سے نکالے جانے کی شدید مذمت کی ہے اور ان ملازمین کی معاونت کرنے والے کارکنوں کو ایڈیڈاس کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میل کے مطابق اس کے میانمار حکومت سے انکیں دوبارہ نوکری پر رکھنے کا کہا ہے
ان ملازمین کی مدد کرنے والے شخص کا کہنا ہے ”تفتیش میں کچھ وقت لگے گا اور اس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا“
جبکہ میانمار پاؤنڈ فیکٹری کے ترجمان کے مطابق وہ میانمار کے لیبر قوانین کے مطابق کام کر رہے ہیں
ملازمت سے نکالے گئےان چھبیس افراد میں سے کچھ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ کوڈی یکیا کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی اتنے مالی مسائل کا شکار ہوں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر ان مسائل کا سامنا کرنا آسان کام نہیں ہے
وہ کہتے ہیں ”ہمیں اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، حالانکہ ہمیں احتجاج کرنے پر معطل کیا گیا ہے اور اس وقت ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں“
مافویو کہتی ہیں ”خطے میں ایڈیڈاس فیکٹریوں میں سے سب سے کم اجرت ہماری ہے، درحقیقت ہم نے یہ ہی مطالبہ کیا تھا کہ تنخواہیں ناکافی ہیں“