یہ کھیل اس گھر میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہوچکا تھا۔
بالکل ایسے ہی جیسے کسی تھیٹر میں ایک ہی ڈرامے کے کئی شوز ہوتے ہیں۔
وہی کردار، وہی پلاٹ، وہی مکالمے، وہی واقعات، وہی سب کچھ۔۔
اب تو اس گھرکے مکینوں کو ایسا لگنے لگا تھا جیسے وڈیو کیسیٹ رِوائنڈ کرکے چلادی گئی ہو۔
امّاں کی طبیعت پھر خراب ہوگئی تھی۔ عمر بھی تو اتنی ہوگئی تھی کہ بس، سنچری پوری ہونے میں دو تین رن ہی باقی رہ گئے تھے۔ امّاں نے بڑی طویل اننگ کھیلی تھی اور جینے کی خواہش اتنی شدید کہ نروس نائینٹیز Nervious Nineties میں بھی نہایت احتیاط اور اعتماد سے کھیل رہی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک رن کے لیے دو دو تین تین اوور کھا رہی تھیں۔ اس سے خود انہیں تو کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن جو لوگ ان کا خیال رکھ رہے تھے، ان کے سر اوکھلی میں پڑے ہوئے تھے، جن پر مسلسل موسل پڑ رہے تھے۔
پچانوے برس کی عمر کچھ کم ہوتی ہے کیا؟
پھر بھی امّاں چاق و چو بند۔۔ کھانے پینے میں گھر کے نوجوانوں کی برابری کرنے سے ذرا بھی نہیں چوکتی تھیں۔ گوشت کی اچھی اچھی بوٹیاں چن چن کر ان کے سامنے رکھی جاتیں۔ ہر مہمان کی ضیافت کے ساتھ امّاں کا خوان بھی تیار ہوتا اور وہ اسے صاف بھی کرجاتیں۔ یہ سب اللہ کا کرم تھا۔۔۔ امّاں پر!
باقیوں کا امتحان تھا۔
امّاں پڑھی لکھی نہیں تھیں، لیکن ذہین بہت تھیں۔ نہایت غریب گھرانے سے تعلق تھا۔ بھائیوں کا تو پتا نہیں البتہ وہ کُل ملاکر پانچ بہنیں تھیں۔ امّاں ان میں سب سے بڑی تھیں۔ ساری بہنیں سانولی سے کچھ زیاہ تھیں اور شکل و صورت بھی تمام بہنوں کی تقریباً ایک جیسی یعنی خوش شکلی سے تھوڑی کم! آواز بھی مردانہ کہ پوتا پاتی اور نواسا نواسی نیز ان کے ہم عمر بچے جب تک ان سے نامانوس رہتے، ان کی آواز سن کر ڈر جاتے اور جب مانوس ہوجاتے تو ہنسنے لگتے۔ لیکن شاباش ان تمام بہنوں کے شوہروں کی، جنہوں نے ساری عمر ان کے ساتھ نہ صرف نباہ کیا بلکہ ہر بہن کم از کم آدھا درجن بچوں کی ماں بنی۔
اماں کے شوہر مقامی میونسپلٹی میں چپراسی تھے اور اماں چالیس برسوں سے ان کی پنشن کھا رہی تھیں۔ وہ خالص گھریلو خاتون تھیں اس لیے پنشن کی رقم اکثر اپنی بیٹیوں اور بیٹوں اور پھر ان کے بچوں پر خرچ کرتیں۔ یوں بھی پہلے پنشن ہوتی ہی کتنی تھی؟ چند سو روپئے! اب جاکر تین چار ہزار تک پہنچی تھی پنشن۔
امّاں سے چھوٹی دو تین بہنیں ملکِ عدم کو سدھار چکی تھیں، لیکن امّاں نہ صرف بقیدِ حیات تھیں بلکہ تروتازہ اور پورے ہوش و حواس میں تھیں۔ انہیں پانچ بیٹیاں تھیں جو خود نانیاں اور دادیاں بن چکی تھیں۔ تین بیٹے تھے۔ تینوں سرکاری ملازم تھے۔ بڑے بیٹے انیق احمد کو ریٹائر ہوئے بھی دس سال ہو چکے تھے۔ دوسرے بیٹے حاذق احمد کو ریٹائر ہوئے دو برس ہو چکے تھے۔ تیسرا بیٹا شفیق احمد بھی پچاس کے پیٹے میں تھا۔ بلکہ پچاس سے زیادہ ہی ہوگا۔ اس کی شادی کو بھی تقریباً ستائیس سال ہو چکے تھے۔ اسے دوبیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ لیکن امّاں کا دل سب سے چھوٹے بیٹے شفیق میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ اپنے دو بڑے بھائیوں کے مقابلے میں شفیق تھا تو سیدھا سادا لیکن کبھی کبھی اس کی سادگی امّاں اور بھائیوں کے لیے تو نہیں البتہ بیوی اور بچوں کے لیے تکلیف دہ ہوجایا کرتی تھی۔
شفیق کا اپنا مکان بنا تو اماّں اس کے گھر اٹھ آئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں۔ شفیق کی بیوی نجمہ کی عمر شادی کے وقت محض پندرہ یا سولہ برس تھی۔ تب سے اب تک وہ امّاں کے زیرِ نگرانی کام کر رہی تھی۔ اب جب کہ شادی کو ستائیس سال ہوچکے تھے اور اس کے دوبیٹے اور دو بیٹیاں بھی جوا نی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے، اس کی ابتلاء کے دن اسی طرح جاری تھے۔ لیکن امّاں شفیق کے دو بڑے بھائیوں کے گھر جاتی تو نہیں تھیں لیکن ان کے حقوق برابر ادا کئے جاتیں۔ دونوں بھائی نہایت ہوشیار اور موقع شناس تھے۔ بڑا بھائی اپنی پنشن کو بخوبی استعمال کرتا تھا اور اماں کو اپنے گھر لے جانے کے بجائے خود ہی شفیق کے گھر آجاتا تاکہ اماں کو اپنے گھر نہ لانا پڑے۔ منجھلا بڑا کائیاں تھا۔ بڑے بھائی سے چار ہاتھ آگے۔ وہ بھی اماں کو کبھی اپنے گھر نہ لے جاتا بلکہ بڑے بھائی کی طرح اماں سے ملنے شفیق کے گھر آجاتا۔ سنا ہے ساری زندگی ملازمت کے دوران تنخواہ کے علاوہ بھی بہت کچھ آمدنی کر لیا کرتا تھا۔ واللہ اعلم باالصواب۔
ہمیشہ کہتا، ’شفیق بے وقوف ہے۔ اس کی بیوی نجمہ اپنے میکے والوں کو بلا کر دعوتیں کرتی ہے۔ دیکھنا، ایک دن شفیق کو برباد کرکے رکھ دے گی۔‘
اسے نجمہ اور اس کے میکے والوں سے خد اواسطے کا بیر تھا۔ ایک دن نجمہ کا بڑا بھائی جو سرکاری ملازم تھا، اپنی بیوی اور دو بچوں کو نجمہ کے یہاں چھوڑ کر پونہ گیا۔ دو دن بعد واپس آیا۔ سوئے اتفاق کہ پونہ سے واپسی کے دو دن بعد اس کی ملاقات حاذق سے ہوگئی۔ اس نے پوچھا’کب آئے پونہ سے؟‘
نجمہ کا بھائی بولا، ’جی، میں کل ہی آیا ہوں۔‘
حاذق بولا، ’اچھا؟ لیکن آپ کے گھر والے تو گزشتہ پانچ دنوں سے شفیق کے گھر میں ہیں؟‘
اتنی باریک نگاہ تھی اس کی کہ دوسروں کے زنان خانے کی بھی پوری خبر رکھتا تھا۔
خیر! گھر میں چاہے کچھ ہوجائے، امّاں کا سارا نزلہ نجمہ پر اترتا۔ شفیق امّاں کو کچھ نہ کہتا بلکہ یوں کہا جائے کہ امّاں سے کچھ کہنے کے لیے اس کے منہ میں زبان تھی ہی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔
نجمہ کے بچے جوان ہو چکے تھے اس کے باوجود وہ خود ایک نئی نویلی دلہن کی طرح امّاں کے رعب، دبدبے اور ڈر کے سائے تلے جی رہی تھی۔ دن بھر کے لیے بھی اسی شہر میں اپنے میکے جاتی تو امّاں کو بے چینی ہوجاتی کہ نجمہ کب واپس آئے گی۔ عام دنوں میں بھی ان کے سوالات اس قسم کے ہوتے۔
’نجمہ! کہاں جارہی ہے؟‘
’نجمہ! کل تو مجھے بتائے بغیر پڑوسی کے یہاں چلی گئی تھی۔ تیری اتنی مجال ہوگئی؟‘
’شفیق! نجمہ کہاں چلی گئی؟ کیا اسے مجھ سے پوچھ کر جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی اب؟‘
یہ سوالات تو ایسے وقت کے ہیں جب امّاں عمر کی آٹھ، نو دہائیاں پار کرچکی تھیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نجمہ کی شادی کے فوراً بعد کے دنوں میں امّاں کے تیور کیسے ہوں گے۔ نجمہ کو آدھی رات کو بھی اماں کی آہٹ پر جاگ جانا پڑتا تھا۔ صبح ہوتے ہی نجمہ شروع ہوجاتی۔
’اماں! داتون کرلو۔ چائے لاتی ہوں۔‘
اماں! چائے لے آؤں؟‘
اماں! کھانا تیار ہوگیا ہے۔ چلو، آجاؤ دستر خوان پر۔‘
اماں! مہانوں کے لیے پوہا بنایا ہے۔ تمہارے لئے بھی لاتی ہوں۔‘
اماں انکار نہ کرتیں۔
اماں کی خاص بات یہ تھی کہ سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاتی تھیں۔ یہاں تک کہ مہمانوں کے ساتھ بھی! پھر چاہے مہمان کتنے ہی اجنبی اور نامانوس کیوں نہ ہوں۔
امّاں بیمار پڑتیں تو ساری محنت نجمہ کو کرنی پڑتی۔ امّاں کی بیماری کے چونچلے، دوائیاں، پرہیزی کھانا، امّاں کی عیادت کو آنے والے رشتے داروں، پڑوسیوں اوردیگر مہمانوں کی خاطر داری۔۔۔ غرض سب کچھ!
دوسرے بھائی کہتے،’اگر امّاں شفیق کے یہاں ہیں تو پنشن بھی تو وہیں خرچ کرتی ہیں امّاں! اگر نجمہ ان کی خدمت کرتی ہے تو کون سا تیر مارلیتی ہے۔‘
جبکہ امّاں پنشن کی یہ رقم خود اپنے ہاتھوں خرچ کرتیں، کچھ خود پر، کچھ پوتے پاتیوں، نواسے نواسیوں پر اور کچھ دیگر بیٹے بہوؤں پر۔۔۔
امّاں خود اتنی ہوشیار تھیں کہ شفیق کے علاوہ کسی دوسرے بیٹے کے یہاں جانے کا نام بھی نہ لیتیں۔ کبھی کبھی تو نجمہ کو لگتا، کاش! میں اب مرجاؤں۔ ستائیس سال اس چکی میں پِس چکی ہوں۔ اللہ اس ابتلاء کو کب ختم کرے گا، کیا پتا۔‘
لیکن ابتلاء تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔
اسے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ جب اس کے دل میں یہ خیال آیا، قبولیت کی گھڑی قریب ہی تھی۔
تین چار برس قبل امّاں شدید بیمار ہوئیں۔ ایسی بیمار ہوئیں کہ بس، لینے کے دینے پڑ گئے۔ پاخانہ رک گیا۔
ڈاکٹر نے کہا، ’انھیں انیمیا دینا ہوگا۔ میں ایک نرس بھیج دیتا ہوں۔‘
امّاں نے ضد پکڑلی۔
’میں کسی نرس یا ڈاکٹر سے انیمیا نہیں کرواؤں گی۔‘
اب کیا آپشن بچ جاتا؟ سو نجمہ نے مُنہ پر ڈھاٹا باندھ، دل پر سو سو طرح سے جبر کر کے امّاں کو گھر ہی میں انیمیا دیا۔ دوسری کوئی بہو پاس آنے کو تیار نہیں تھی۔ صوم و صلواۃ کی پابند نجمہ کے لیے یہ کام بڑا مکروہ تھا لیکن بہرحال، اسے کرنا پڑا۔ پھر کیا تھا، سب کو منہ ہو گئے۔ اب جب بھی ایسا کوئی موقع آتا، سارے رشتہ دار آتے، ہال میں بیٹھتے، چائے ناشتہ کرتے اور ادھر نجمہ اور اس کی بیٹی، منہ پر ڈھاٹا باندھے امّاں کو انیمیا دیتیں۔
اس مرتبہ بھی وہی ہورہا تھا۔
وہی کھیل ہورہا تھا جو ہمیشہ ہوتا رہتا تھا۔ سارے رشتے دار جمع تھے۔ امّاں کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی۔ نجمہ اور اس کی بیٹیاں گھوم گھوم کر سارے رشتے داروں کو چائے ناشتہ، کسی کو کھانا دے رہی تھیں۔ شفیق امّاں کو گود میں لیے ہوئے تھا۔ شام ہوتے ہوتے نجمہ کے پیروں میں گولے آنے شروع ہوگئے تھے
رات آٹھ بجے ہوں گے کہ نجمہ کچن میں کھانا بناتے بناتے دھڑام سے گر پڑی اور بے ہوش ہوگئی۔ فوراً پڑوسی ڈاکٹر کو بلایا گیا، جس نے بتایا کہ بلڈ پریشر نہایت کم ہوگیا ہے۔ اسے فوری طور پر دواخانے میں بھرتی کروایا گیا۔ چونکہ ایک ہی گھر اور مریض دو! ا س لیے نجمہ کے ساتھ جانے والوں میں صرف اس کا بڑا بیٹا کامران اور چھوٹی بیٹی عارفہ ہی رہ گئے جب کہ شفیق اور باقی تمام رشتے دار امّاں کے ارد گرد الاؤ ڈالے بیٹھے رہے۔ کوئی ان کے ہاتھ سہلارہا ہے تو کوئی تلوؤں کو سہلارہا ہے۔ زیادہ تر لوگ بہ آوازِ بلند سورۃ یٰسین پڑھ رہے تھے۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ نجمہ کے بیٹے کامران کی ٹو وہیلر باہر رکنے کی آواز آئی۔ پھر کامران مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا اور ’ابّو! امّی۔۔۔۔۔‘ اتنا کہہ کر زار و قطار رونے لگا۔ جسے معلوم تھا کہ کامران نجمہ کے ساتھ دواخانہ گیا تھا، وہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ خدا نخواستہ! کچھ گڑبڑ تو نہیں ہوگئی؟ جو ناسمجھ تھے یا ناسمجھ بننے کی کوشش کر رہے تھے، وہ اپنی جگہ خاموش تھے۔
کامران کے رونے میں اب اس کی ہچکیاں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ شفیق کو کامران کے گلے لگنے اور اس کے رونے کی شدت سے کچھ اندازہ ہونے لگا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔
اس سے پہلے کہ کچھ دوسرے رشتے دار کامران سے اس کے رونے کی وجہ دریافت کرتے، شفیق کو اماں کے جسم میں حرکت سی محسوس ہوئی۔ اس نے کامران کو خود سے دور کیا اور امّاں کی جانب دوڑا۔ سارے لوگ کامران کے وجود کو بھول کر اماں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ شفیق نے آوازیں لگائیں،’امّاں! امّاں!‘
’امّاں، آنکھیں کھولو امّاں۔ میں ہوں تمہارا شفیق!‘
شفیق امّاں کو آواز یں دینے لگا
اماّں نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ ان کے گلے سے آواز نکلی، ’اللہ!‘
پورے گھر میں خوشی کا ماحول بننے لگا۔ امّاں کو دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا۔ پھر انہوں نے نقاہت بھری آواز میں کہا، ’پانی!‘
شفیق دوڑا دوڑا گیا، پانی لایا اور امّاں کو پانی پلانے لگا۔
شفیق نے پھر پوچھا، ’امّاں، سیب دوں کاٹ کے؟‘
امّاں سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شفیق نے سیب کے ساتھ دوسری کچھ چیزیں بھی دیں، جو انہوں نے بہ رغبت کھا لیں۔ پھر وہ دھیر ے دھیرے باتیں بھی کرنے لگیں۔ اچانک انہیں کسی کمی کا احساس ہوا۔ انہوں نے شفیق سے پوچھا، ’نجمہ دکھائی نہیں دے رہی؟ کہاں چلی گئی؟ کہیں اپنی ماں کے یہاں تو نہیں چلی گئی مجھے بغیر بتائے؟‘
اسی اثناء میں دروازے سے نجمہ کی چھوٹی بیٹی بھی داخل ہوئی جو نجمہ کے ساتھ ہاسپٹل گئی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ زور سے ’ابو۔۔۔۔۔! امّی۔۔‘ بول کر زار و قطار رونے لگی اور پھر دونوں بھائی بہنوں کے رونے کی آواز گھر سے باہر آنے لگی لیکن ان سب آوازوں پر امّاں کی بھرائی ہوئی لیکن گرجتی آواز بھاری تھی۔
نجمہ ہاسپٹل گئی تھی تو زندہ تھی لیکن زندہ واپس نہ آ سکی۔ آخری سانس لیتے وقت اس کی عمر بہ مشکل چوالیس سال ہوگی۔
دو مہینے بعد شفیق کی دوسری شادی ہو گئی۔ ولیمے میں محلے کے گنے چنے لوگ شامل تھے۔ پھر کچھ دن اور گزر گئے۔ سننے میں آیا کہ نئی بہو نجمہ جیسی نہیں ہے۔ اسے اماں کی خدمت کرنے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی شفیق کے بچوں سے بھی اس کی بنتی ہے۔ اماں بھی اب بجھی بجھی سی رہنے لگی ہیں۔ شاید انہیں احساس ہونے لگا تھا کہ نجمہ کے ساتھ کچھ زیادہ ہی غلط ہو رہا تھا۔
بہر حال، اماں کو تو سنچری مکمل کرنی تھی لیکن اب رن لینے کی رفتار نہایت کم ہوگئی تھی اور قدموں کی لڑکھڑاہٹ میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔