قبائلی دشمنی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتی، یہ لڑائی جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے اتنی ہی خونریزی زیادہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے
ایسی ہی ایک دشمنی خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں پینتیس برس پہلے اس وقت شروع ہوئی، جب تحصیل لنڈی کوتل کے دو بااثر اور طاقتور خاندانوں میں 1986ع میں معمولی تنازع پر دشمنی کا آغاز ہوا اور یہ ایک طویل لڑائی کی صورت اختیار کر گئی
دونوں خاندانوں کی دشمنی میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ دونوں فریقین کو مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
مقامی سماجی رہنما نعیم شنواری بتاتے ہیں ”ان خاندانوں کی لڑائی سے پورے علاقے میں خوف کی فضا قائم رہی۔ جب سے دشمنی کا آغاز ہوا، دونوں گھرانوں نے اپنے حُجروں اور رہائش گاہوں کے باہر سکیورٹی برج قائم کیے۔ اس کے علاوہ بھی سکیورٹی کے لیے ہر غیر معمولی انتظامات کیے گئے“
ان خاندانوں کے بیشتر افراد علاقہ چھوڑ کر پشاور اور دیگر شہروں میں آباد ہو گئے مگر گھر کے سربراہ اپنے حجروں میں ہی موجود رہ کر حریف کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے
نعیم شنواری کے مطابق ”جب بھی دونوں گھرانوں میں کسی کا قتل ہوتا، پورے گاؤں میں سوگ کا سماں ہوتا۔ علاقے کے مشران اس خونی دشمنی کو ختم کرکے امن قائم کرنے پر زور دیتے تھے“
خونی دشمنی دوستی میں کیسے تبدیل ہوئی؟
لنڈی کوتل کے دو بڑے خاندانوں کے درمیان طویل دشمنی بدھ کو جرگے کی مدد سے دوستی میں بدل گئی۔ جرگہ کے مشران دو سال کی مسلسل کوشش سے دونوں فریقین کو ایک جگہ بٹھانے میں کامیاب ہوئے
صلح کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں دونوں خاندانوں کے افراد آپس میں بغل گیر ہوئے، ایک دوسرے کو دل سے معاف کیا اور آئندہ بھائیوں کی طرح رہنے کا عہد کیا
تقریب میں سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری، ڈی پی او خیبر اور دیگر عمائدین شریک ہوئے۔ شرکاء نے کہا کہ فریقین نے جرگہ ثالثوں کے ساتھ بھر پور تعاون کیا اور دونوں طرف سے صلح کی خواہش تھی اور اپنی ضد اور انا سے پیچھے ہٹ گئے تھے
شرکا نے بتایا کہ جرگہ ممبران نے طویل جدوجہد کے بعد فریقین کی دشمنی کو دائمی دوستی میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی
ڈی پی او خیبر عمران خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی پرانی اور بڑی دشمنی سے پورے علاقے میں امن و امان کی صورتحال بگڑ جاتی ہے، اس لیے پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ مقامی جرگہ سسٹم کو استعمال کر کے فریقین میں صلح صفائی کروائی جائی
پولیس کے مطابق دونوں خاندانوں کی لڑائی میں اب تک بارہ افراد جان سے گئے ہیں اور گیارث افراد زخمی ہوئے
جرگے میں ثالثی کے طور پر مشران نے اہم کردار ادا کیا تاہم پولیس کی جانب سے جرگے مشران کو مکمل تعاون حاصل رہا
ڈی پی او خیبر کے مطابق خیبر پختونخوا صوبے میں ضم ہونے سے پہلے معمولی تنازعات دشمنیوں میں بدل گئے تھے۔ پولیس نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کے ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ ان ضم اضلاع میں پولیس آنے کے بعد کافی حد تک ایسے معاملات حل کر لیے گئے ہیں
دشمنی کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
اس حوالے سے مقامی صحافی عبدالقیوم آفریدی کا کہنا ہے ”زیادہ تر دشمنی کی وجہ اراضی کے تنازعات ہوتے ہیں جو کہ نسلوں تک چلی آتی ہیں۔ ایسے خاندان بھی موجود ہیں، جن کے سرابراہ خود تو دنیا سے چلے گئے مگر ان کی نسلیں دشمنی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں“
انہوں نے بتایا ”دشمنی کا آغاز ہوتے ہی فریقین کے بعض افراد بیرون ملک روزگار کے لیے چلے جاتے ہیں جو خاندان کے دیگرافرار کو باہر سے پیسے بھیجتے رہتے ہیں تاکہ وہ گھر میں رہ کر دشمنوں کے لیے میدان خالی نہ چھوڑے۔ دشمن ایک دوسرے کے خلاف مورچے بھی قائم کر لیتے ہیں علاقہ چھوڑ کر نہیں جاتے اور کوشش کرتے ہیں جہاں دشمن نظر آئے اور اپنا بدلہ لے“
صوبے میں ضم ہونے کے باوجود جرگہ نظام کی بدولت ایسے معاملات کا حل نکالا جا رہا ہے اور اس میں انتظامی افسران بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں
صحافی عبدالقیوم آفریدی کے مطابق رواں سال بارہ ایسے کامیاب جرگے ہوئے، جس میں پرانی دشمنیاں ختم ہوئیں۔