اکثر لوگ فیسبک پر اچھے ریویوز دیکھنے کے بعد کسی سیلر سے مصنوعات خریدتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں، تو احتیاط لازم ہے
کیونکہ پاکستان میں ایسے ہی ایک کاروبار کے مالک پر الزام ہے کہ انہوں نے کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے جی پی یوز اور گیمنگ کونسول کے پری آرڈر کے نام پر مبینہ طور پر لوگوں سے کروڑوں روپے لیے اور پراڈکٹ دیے بغیر غائب ہو گئے
نہ تو صارفین کو ان کے آرڈر ملے ہیں اور نہ رقم کی واپسی کی کوئی امید نظر آ رہی ہے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ محض کاروباری مشکل ہے یا بہت بڑا آن لائن دھوکہ
ساہیوال کے ماجد علی، کراچی کے عماد الدین، اسلام آباد کے حسیب اختر، فیصل آباد کے محمد زید اور حیدرآباد کے فارس عبدالعزیز ان سب افراد کا الزام ہے کہ ’زپ ٹیک‘ نام کی ایک آن لائن شاپ سے انہوں نے جی پی یوز اور سونی کے پلے اسٹیشن فائیو پیسے دے کر خریدے، لیکن ان سب کو کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی یہ اشیا نہیں ملیں
ان چار لوگوں کے علاوہ فیسبک پر زپ ٹیک کے متاثرین کا ’زپ ٹیک ایفیکٹیز‘ کا ایک گروپ بھی ہے، جس میں متاثرین نے اپنی اور اپنے آرڈرز کی تفصیلات دی ہوئی ہیں، جس کے مطابق اس کمپنی نے مبینہ طور پر ملک کے بیالیس شہروں کے تین سو پچاسی افراد سے کروڑوں روپے سے زیادہ رقم وصول کر کے ابھی تک انہیں ان کے آرڈر نہیں دیے۔ متاثرین کا یہ بھی الزام ہے کہ زپ ٹیک کے مالک ملک سے فرار ہوگئے ہیں
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ یہ مبینہ دھوکہ کیسے ہوا اور زپ ٹیک کیا ہے، یہ بتانا ضروری ہے کہ کنسول اور جی پی یو کیا ہوتے ہیں؟ اور یہ کہ جی پی یو اور پلے سٹیشن کی اتنی طلب کیوں؟
درااصل گرافک پروسیسنگ یونٹ (جی پی یو) کمپیوٹر کا مائیکرو پروسیسنگ یونٹ ہوتا ہے۔ موجودہ دور کی وڈیو گیمز میں بہترین گرافکس کو کمپیوٹر پر بغیر کسی رکاوٹ کے چلانے کے لیے کمپیوٹر کا اپنا سی پی یو کافی نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ اضافی جی پی یو کی بھی ضرورت ہوتی ہے
جی پی یو صرف گیمنگ کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ فری لانسرز کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے کمپیوٹر کی مدد سے گرافک ڈیزائنگ، وڈیو ایڈیٹنگ وغیرہ بھی کرتے ہیں
اس کے علاوہ جی پی یو کرپٹو مائنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اے ایم ڈی اور نیویڈیا کے جی پی یوز کافی پسند کیے جاتے ہیں
دوسری طرف کمپیوٹر پر گیمنگ کے علاوہ اور بھی کام ہو سکتے ہیں لیکن گیمنگ کنسولز سو فی صد گیمز کھیلنے کے لیے بنے ہیں۔ اپنی پسندیدہ گیم کی ڈسک ڈالیے اور بے فکر ہو کر بہترین گرافکس والی گیم کھیلیے
گیمنگ کنسولز میں ایکس باکس اور سونی پلے اسٹیشن کے کنسولز کافی مقبول ہیں
2020ع میں کورونا کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر گیمنگ کے رجحان میں مزید دلچسپی پیدا ہوئی اور اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کمپیوٹر گیمنگ کے آن لائن پلیٹ فارم اسٹیم کے مطابق سال 2020ع میں اکیس فی صد زیادہ گیمز کھیلی گئیں اور لوگوں نے اوسطاً پچاس فی صد زیادہ گھنٹوں گیمز کھیلیں
گیمنگ کے علاوہ بٹ کوائن مائنگ سے ملنے والے منافع نے جی پی یو کی طلب کو مزید بڑھا دیا، جبکہ جی پی یو کی رسد کم تھی کیونکہ یہ چینی کمپنیاں بناتی ہیں اور چین میں کورونا کی وجہ سے فیکٹریاں بند تھیں
دوسری جانب سونی نے پلے اسٹیشن کا نیا ماڈل ’پی اس فائیو‘ لانچ کیا۔ چند لمحوں میں ہی سارا اسٹاک خرید لیا گیا اور جی پی یو کی طرح اس مشین کی رسد کے وہی مسئلے تھے
لہٰذا مارکٹ میں ان دونوں مصنوعات کی طلب بہت تھی، جن لوگوں کے ہاتھ یہ شروع میں آ گئیں انہوں نے کئی گنا زیادہ دام میں انہیں بیچنے کا کاروبار بھی شروع کر دیا
پاکستان میں بھی یہی رجحان چل رہا تھا فرق یہ تھا کیونکہ یہ کمپنیاں براہِ راست اپنی چیزیں یہاں نہیں بیچ رہی تھیں تو ان کی قیمت اور زیادہ تھی
اس صورتحال میں ’زپ ٹیک‘ نے ایسی آفر دی، جسے ٹھکرانا مشکل تھا۔ اکتوبر 2021ع میں وہ پی ایس فائیو ڈجیٹل ایڈیشن بانوے ہزار روپے کا جبکہ ڈیسک ایڈیشن ایک لاکھ گیارہ ہزار کا بیچ رہے تھے
فارس عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ جو پلے اسٹیشن فائیو انہیں دوسرے دکاندار ڈیڑھ لاکھ روپے میں دے رہے تھے، انہیں زپ ٹیک سے ایک لاکھ گیارہ ہزار کا مل رہا تھا
ماجد علی نے بتایا کہ نویڈیا کا گرافک کارڈ جو انکیں تریپن ہزار کا زپ ٹیک سے مل رہا تھا وہ دیگر بیچنے والوں سے ایک لاکھ دس ہزار کا مل رہا تھا
بس ایک پیچیدگی یہ تھی کہ آپ کو پری آرڈر دینا تھا یعنی سو فی صد پیسے ابھی جمع کروائیں اور چند مہینے کے انتظار کے بعد ’آپ کی چیزیں آپ کے پاس‘
ایک آفر چاہے جتنی بھی اچھی ہو، بڑی رقم میں مال خریدنے سے پہلے آپ اس پر تحقیق کرتے ہیں اور اس کی ساکھ کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ایسی توقع آپ زپ ٹیک سے پری آرڈر کرنے والوں سے بھی کرتے ہوں گے
محمد زید اور عماد الدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے مشہور سوشل میڈیا انفلوئینسرز سے متاثر ہو کر زپ ٹیک سے خریداری کی
ان میں سے ایک انفلوئینسر جنید اکرم تھے، جن کی ایک وڈیو میں وہ ایک پی ایس فائیو کو ان باکس کر رہے تھے اور ساتھ اسے فراہم کرنے والی کمپنی زیپ ٹیک کی تعریف بھی کر رہے تھے۔ جنید اکرم نے الزام عائد کیا کہ زپ ٹیک نے ان کے ساتھ بھی مبینہ طور پر دھوکہ کیا
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2021ع میں اپنی وڈیو میں اپنے پیسوں سے خریدا پی ایس فائیو دکھایا تھا اور زپ ٹیک کمپنی کا انتخاب اس وجہ سے کیا کیونکہ جب انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر فالورز سے یہ رائے لی کہ انہیں کس سے یہ خریدنا چاہیے تو بہت بڑی تعداد میں انہیں لوگوں نے زپ ٹیک کا کہا
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک دوست نے فیسبک گروپ پاکستان پی سی گیمرز (پی پی جی) کا حوالہ بھی دیا، جہاں زپ ٹیک کو ویریفائڈ سیلر قرار دیا گیا تھا اور کہا کہ ’جب میں نے چیز منگوائی تو وہ وقت پر میرے پاس پہنچی اور کورونا وائرس کے وقت یہ آسانی سے دستیاب بھی نہیں تھی۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔‘
جنید اکرم کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے مقامی کاروبار کو وہ فروغ دیں اور وہ زیادہ تر یہ کام پیسے لیے بغیر نیک نیتی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ زپ ٹیک کے معاملے میں بھی انہوں نے پیسے لیے بغیر یہ کیا
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ زپ ٹیک کے اچھے تجربے کی بنیاد پر کاروبار کی غرض سے انہوں نے زپ ٹیک سے ہی مزید پینتالیس پی ایس فائیو خریدے، جن میں سے انہیں صرف پندرہ ملے جبکہ زپ ٹیک نے انہیں تینتیس لاکھ تیس ہزار روپے کے تیس پی ایس فائیو ابھی تک نہیں دیے لہٰذا وہ بھی متاثرین میں سے ہیں
ماجد علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی زپ ٹیک پر اس لیے بھروسہ کیا کیونکہ ایک مقبول اور قابلِ اعتبار فیسبک گروپ پی پی جی (پاکستان پی سی گیمرز) نے زپ ٹیک کو اپنے ’ویریفائڈ سیلرز لسٹ‘ یعنی تصدیق شدہ فروخت کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا تھا
واضح رہے کہ پی پی جی فیسبک گروپ کا 2011ع میں قائم ہوا۔ اس گروپ کا مقصد پاکستان میں وڈیو گیمنگ کا فروغ اور اس سے متعلق پیشرفت کے بارے میں بات چیت اور سب سے اہم خرید و فروخت کے لیے محفوظ اور با اعتماد ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس گروپ میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ ممبر ہیں
اس گروپ کے موجودہ ایڈمنز میں مرتضٰی رزاق اور عثمان شیخ شامل ہیں۔ مرتضٰی شیخ بتاتے ہیں کہ دو سے تین سال پہلے گروپ میں ایک سیلر سامنے آیا، جس کی پروفائل کا نام ’میجر زپی‘ تھا۔ اس نے بہترین قیمتوں پر اشیا بیچیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں تھا اور ساتھ وہ زبردست کسٹمر سروس بھی دیتا تھا
وہ کہتے ہیں ’میں ایسی سروس کی بات کر رہا ہوں کہ وہ لوگوں کے گھر پہنچ کر آرڈر ان کے ہاتھ میں پکڑاتا تھا اور جو آرڈر ہے اس سے بہتر چیز دیتا تھا، لہٰذا اس نے بہت جلد لوگوں کا اعتماد جیت لیا۔ اس حد تک کہ ہر گروپ کی ہر پوسٹ کے نیچے لوگ ’میجر زپی‘ کی پروفائل کا لنک دے کر لوگوں کو اس سے خریدنے کا مشورہ دیتے تھے‘
مرتضٰی نے بتایا کہ وہ اور دیگر ایڈمن ہر کسی کو گروپ میں اپنا سامان فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے لیے بیچنے والے کو ’ویریفائڈ سیلرز کی لسٹ‘ میں شامل ہونا پڑتا ہے
’ضروری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آپ اس فہرست میں کمیونٹی کے مثبت رائے کے بغیر شامل نہیں ہو سکتے جو زپ ٹیک کو بڑی آسانی سے مل گئی۔ اسے اس حد تک حمایت حاصل تھی کہ وہ بیسٹ سیلر کا ایوارڈ بھی جیت گیا۔‘
مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ سب لوگوں کو ایک باقاعدہ بزنس نظر آرہا تھا اور ہر کوئی اس پر بھروسہ کر رہا تھا۔ جو گرافک کارڈ مارکیٹ میں ایک لاکھ نوے ہزار کا مل رہا تھا وہ زپی اسی ہزار میں دے رہے تھے لیکن آپ کو تین سے چھ مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا
انہوں نے کہا ’پاکستان میں کوئی سستی چیز مل رہی ہو تو لوگ لیتے ہیں چاہے جہاں سے بھی ملتی ہو اس طرح زپ ٹیک کا پری آرڈر کا کاروبار شروع ہوا۔ ڈیڑھ سال تک یہ آرڈر ٹائم پر ڈیلیور ہوتے رہے، اسی وجہ سے مارکیٹ میں میجر زپی کا نام مزید پھیل گیا‘
مرتضیٰ نے بتایا کہ اگست 2021ع میں میجر زپی نے پی پی جی گروپ کے ذریعے ایسے گرافک کارڈ کے پری آرڈر لیے، جس کو کمپنی نے بنانا چھوڑ دیا تھا اور اس کی طلب بہت تھی۔ ’کروڑوں کے کارڈ پری آرڈر ہوئے اور ساٹھ فی صد آرڈر ڈیلیور بھی ہوئے۔‘
مرتضٰی کا کہنا ہے کہ دسمبر 2021 میں انہیں زپ ٹیک اور کمانڈر زپی کے متعلق شکایات موصول ہونے شروع ہوئیں کہ وہ اپنے آرڈر ڈیلیور نہیں کر رہے، جس کے بعد پی پی جی کے ایڈمنز نے براہ راست میجر زپی سے رابطہ کر کے لوگوں کو ان کی اشیا دلوانے کی کوشش کی
’اسے ہر روز کہنا پڑتا تھا کہ آپ سے یہ کارڈ آرڈر کیا گیا ہے یہ انھیں دیں، اس طرح ہم نے اگست میں دیے آرڈر کلیئر کروائے۔ جنوری میں ہم نے گروپ میں پری آرڈر بند کر دیے اور لوگوں کو بتایا کہ زپی کے مسائل چل رہے ہیں اس سے آرڈر نہ کریں لیکن اس کے باوجود لوگوں نے درجنوں کے حساب سے پی ایس فائیو اور گرافک کارڈ خریدے۔‘
میجر زپی کون ہے؟
میجر زپی کا نام محمد حسن ہے۔ ان کا یوٹیوب پر چینل بھی ہے، جس پر وہ گیمنگ کی وڈیوز اسٹریم کرتے تھے
2019ع سے انہوں نے پی پی جی گروپ پر کمپیوٹر کی ایسیسریز فروخت کرنا شروع کی جبکہ 2020ع میں جی پی یوز اور گیمنگ کنسولز پیچنے شروع کر دیے
2020ع میں ہی انکوں نے ’زپ ٹیک‘ نام کا فیسبک پیج شروع کیا۔ زپ ٹیک نام کی دکان بھی انہوں نے پہلے کراچی کے رم جھم ٹاور میں کھولی، لیکن بعد میں کلفٹن میں منتقل ہو گئے
متاثرین کے مطابق زپ ٹیک کے نمائندے لاہور اور اسلام آباد میں بھی تھے، جبکہ ملک کے دیگر شہریوں کے خریدار بینک ٹرانسفر کے ذریعے آن لائن اشیا آرڈر کرتے تھے۔ اس وقت ان کی کلفٹن میں موجود دکان کرائے کے لیے خالی ہو چکی ہے
حسن کی اپنی پروفائل، زپ ٹیک کا پیج اور حسن کی طرف سے کی گئی پی پی جی گروپ پر پوسٹس آج بھی موجود ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف اشیا بیچ رہے ہیں
متاثرین کا یہ بھی الزام ہے کہ محمد حسن ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں
محمد حسن نے اس معاملے پر گذشتہ برس مئی میں زپ ٹیک کے پیج پر چند وڈیوز شائع کی جن میں انہوں نے کہا ’ہم کچھ ہفتوں سے بتا رہے ہیں ہماری سپلائی چین کا مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے پہلے تمام آرڈر وقت پر پہنچائے ہیں اور اس بار ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ کچھ ’جائز شپنگ کے مسائل ہیں‘
انہوں نے کہا کہ اگست میں جیسے لوگوں کو ریفنڈ کیا، ویسے ہی بعد میں پری آرڈر کرنے والے یہ فیصلہ کر کے بتائیں کیا وہ معاوضہ چاہتے یا چند مہینے انتظار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ جلد فیسبک پر پول کریں گے
ایک اور وڈیو میں انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ بھاگ کر چلے گئے ہیں ’یہاں پر ہم بیٹھ کر آپ سے اسی لیے بات کر رہے ہیں کیونکہ ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں، ہم اسے بڑھانا نہیں چاہتے۔ اگر ہم نے اس کا حل نہیں کرنا ہوتا تو ہم آپ سے بات بھی نہیں کرتے۔ کب کا پیج غائب ہو چکا ہوتا، سب غائب ہو جاتا ہم یہاں پر ہی ہیں۔‘
تاہم زپ ٹیک کے متاثرین اور پی پی سی جی گروپ کے ایڈمن اس جواب سے متفق نہیں نظر آ رہے
عثمان شیخ کا کہنا تھا ”اگر شپنگ کا مسئلہ تھا تو وہ ائیر امپورٹ کی رسید دے دیتے جو کئی دفعہ مانگنے کے باوجود انھوں نے نہیں دی۔ اگر آپ سمندر سے بھی کوئی چیز درآمد کرتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ چالیس سے ساٹھ دن لگتے ہیں“
فارس عبدالعزیر بتاتے ہیں کہ جب ان کا اکتوبر 2021 میں دیا گیا دو پلے اسٹیشن کا آرڈر فروری 2022ع تک نہیں پہنچا اور مزید وقت گزرنے کے بعد زپ ٹیک نے جواب دینا بھی بند کردیا تو انھوں نے فیس بک اور واٹس ایپ پر گروپس بنا لیے جس میں باقی پری آرڈر کرنے والے افراد کو جمع کر لیا
انہوں نے بتایا ’میں نے لوگوں سے فارم پُر کروایا جو تقریباً چار سو لوگوں نے بھرا۔‘
فارس کا مزید کہنا تھا ’کچھ عرصے بعد ہمیں اپنے ذرائع سے پتا چلا کہ حسن تُرکی چلے گئے ہیں اور انہوں نے اس بارے میں اعلان نہیں کیا۔ ایسا ہی محسوس ہوا کہ وہ فرار ہو گئے ہیں۔‘
فارس بتاتے ہیں کہ یہ جاننے کے بعد انہوں نے لوگوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے متعلقہ تھانوں میں زپ ٹیک اور اس کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کریں لیکن ان کے مطابق یہ کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا
’میں جب لوگوں سے کال پر بات کرتا ہوں تو وہ رو پڑتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم نے جمع پونجی لگا دی، ہمیں تو کچھ نہیں ملا، ہمارے لیے دوبارہ پیسے جمع کرنا عذاب ہے۔‘
اس مبینہ اسکیم کی ایک ایف آئی آر کراچی کے سچل پولیس تھانے میں درج کی گئی، جس میں پندرہ متاثرین نے اپنے بیان ریکارڈ کروائے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا کل نقصان پچیس لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے بنتا ہے
کراچی کے مقامی مجسٹریٹ نے زپ ٹیک کے مالک محمد حسن کو مفرور قرار دے کر نا قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیے ہیں
کیس کے تفتیشی افسر ایس آئی عامر میمن کا کہنا ہے کہ مفرور کو اشتہاری قرار دینے کے بعد ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بند کر دیا جائے گا
زپ ٹیک کے اکثر متاثرین ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اتنا وقت گزر جانے اور پیشرفت سست ہونے کی وجہ سے تفتیشی حکام سے کچھ مایوس ہیں
اس کے علاوہ زپ ٹیک کے مالک کے خلاف ایک پٹیشنر نے اسلام آباد کے کنزیومر کورٹ میں انتالیس لاکھ روپے کے نقصان کا الزام لگایا ہے اور عدالت نے انہیں حاضر ہونے کا نوٹس بھی دیا ہوا ہے
کیا یہ فراڈ ہے؟
ماہر قانون ایڈووکیٹ حسن جاوید نے عمومی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے بڑے پیمانے پر پیسے لے کر وقت پر مال کی ادائیگی نہیں کی اور بعد میں طے شدہ توسیع کیے گئے وقت پر بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور وہ منظر عام سے غائب ہو گیا تو یقیناً یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا
ان کا کہنا تھا ’جن پر الزام لگایا گیا ہے وہ ایف آئی آر کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس میں نہیں آتے اور ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو ایف آئی اے اور وزارت داخلہ انٹرپول کے ذریعے انہیں واپس ملک میں لا سکتے ہیں۔‘
ایڈوکیٹ حسن کا کہنا تھا ’نیب قانون کی نئی ترمیم کے بعد اگر کسی جرم کے متاثرین کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہو اور پچاس کروڑ روپے تک کا نقصان ہوا ہو تو پھر ایسا کیس نیب کے پاس جا سکتا ہے۔‘
مرتضیٰ شیخ اس سارے معاملے کی وجہ سے اپنے گروپ پی پی جی کی ساکھ خراب ہونے سے پریشان اور مایوس ہیں ”ہماری اتنے سال کی محنت ضائع ہوئی۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ویریفائڈ لسٹ کا کوئی بھی فائدہ نہیں، پی پی جی کا فائدہ نہیں۔ اتنی محنت کرنے کے بعد کافی بری لگتی ہے یہ بات“
مرتضیٰ شیخ کہتے ہیں ”اس تجربے کے بعد ہمارے گروپ پر پری آرڈر کا نام بھی نہیں آتا۔ اگر کسی کو خریداری کرنی ہے تو اچھی ڈیلز کا یا قیمتیں کم ہونے کا انتظار کریں۔ اگر آپ کوئی پراڈکٹ لے رہے ہیں تو وہ آپ کو فوراً ملنی چاہیے یہ نہیں کہ اس کے لیے تین یا چھے مہینے انتظار کرنا پڑ رہا ہے“