کشمیر میں بنے کرکٹ بیٹ جس سے ورلڈکپ کا ’سب سے بڑا‘ چھکا لگا!

ویب ڈیسک

کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرکٹ بیٹ بنانے کا آغاز 1920ع میں اس وقت ہوا، جب والٹر آر لارنس نے انگلینڈ سے درآمد کی جانے والی ولو بید یعنی بید کی شجرکاری شروع کی۔ یوں کشمیر میں کرکٹ کے بلے بنانے کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے

آج، سنگم گاؤں میں سری نگر جموں ہائی وے پر دکانوں کے باہر بید کی لکڑی کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔ دکانوں کے پیچھے چھوٹے مینوفیکچرنگ یونٹس ہیں، جہاں اس بید سے کرکٹ کے بلے ہاتھ سے بنائے جاتے ہیں، جو بھارت اور دنیا بھر میں کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک میں بھیجے جاتے ہیں

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں چار سو مینوفیکچرنگ یونٹس ہیں اور یہ تین سو کروڑ سے زیادہ مالیت کی صنعت ہے۔ یہاں گذشتہ ایک سو دو سالوں سے کرکٹ کے بلے بنائے جا رہے ہیں اور اس کے بعد سے پورے کشمیر میں کسی بھی جگہ بید کا ایک سادا درخت نہیں لگایا گیا، جس سے خطے کی مشہور کرکٹ بیٹ انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے اور کرکٹ کے بلے کی سپلائی خطرے میں پڑ رہی ہے

جی آر 8 سپورٹس کے مالک فیض الکبیر بتاتے ہیں ”اگر آپ ابھی دیکھیں گے تو ہم بھی ترقی کر چکے ہیں اور ہماری صنعت بھی ترقی کر چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں گذشتہ ورلڈ کپ میں کشمیری برانڈ جی آر 8 بین الاقوامی کرکٹ میں استعمال ہونے والا پہلا بیٹ تھا۔ آسٹریلیا میں ہوئے ورلڈکپ میں متحدہ عرب امارات کی کرکٹ ٹیم نے ہمارے بنائے بلے استعمال کیے اور عالمی کپ میں جنید خان نے 109 میٹر کا سب سے بڑا چھکا ہمارے ہی تیار کردہ بلے سے لگایا“

کرکٹ بیٹ کی مانگ بڑھی ہے، مینوفیکچرنگ بڑھی ہے لیکن مینوفیکچرنگ یونٹس اب کشمیر میں خام مال کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ پچھلے سو سالوں سے کسی نے بھی اس خطے میں بید کا ایک درخت نہیں لگایا

فیض الکبیر بتاتے ہیں ”ہمیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل یا کرکٹر کی ضرورت کے مطابق کسی بھی پیرامیٹرز میں کہیں بھی کمی نہیں ہے لیکن فی الحال ہمیں خام مال کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ ہم بید کو کاٹ رہے ہیں“

انہوں نے کہا ”چونکہ ہمیں اس معیار کا خام مال نہیں مل رہا، جس سے ہم ترقی کر رہے تھے اور اب ہم مستقبل قریب میں یہ حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ بید کے درخت کشمیر سے معدوم ہو رہے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بید یا تو کشمیر یا انگلینڈ میں اگایا جاتا ہے“

کئی سالوں سے، اس خطے کے کسان بید کی جگہ روسی پوپلر لگا رہے ہیں۔ کسانوں نے بید کے بجائے چنار کا انتخاب کیا کیونکہ اس کی تیزی سے نشو و نما اور پختگی ہوتی ہے جس سے انہیں بید کے درختوں سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے

ایک کسان محمد عبد اللہ ڈار نے بتایا ”اس وقت ہم پوپلر کے درخت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بید کے درخت سے کم وقت میں پک جاتے ہیں۔ کشمیری بید اب کم تعداد میں ہے، ہم پہلے بید لگاتے تھے اور کرکٹ کے بیٹ فیکٹریوں کو فروخت کرتے تھے، بعد میں حکومت نے روسی پوپلر کے درخت متعارف کروائے اور انہیں بید کے درختوں کی جگہوں پر لگایا۔ پوپلر کے لگائے ہوئے درخت بید کے درختوں سے کم وقت میں پختہ ہو جاتے ہیں“

انہوں نے کہا ”ہم اب بید کے درخت نہیں لگاتے بلکہ ہماری توجہ پوپلر کے درختوں پر مرکوز ہے۔ زندگی میں ایک شخص پوپلر سے دو سے تین گنا آمدنی حاصل کر سکتا ہے جو کہ بید کے مقابلے میں حکومت نے متعارف کرایا تھا جسے پختہ ہونے میں کافی وقت لگتا ہے“

محمد عبداللہ ڈار کہتے ہیں ”ہم حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ کوئی ایسی ہائبرڈ بید متعارف کرائے جو ہمارے پاس اس وقت موجود بید کے مقابلے کم وقت میں پختہ ہو جائے۔ بید چنار سے زیادہ اہم ہے اور ہم بید کے پودے کی طرف واپس جا سکتے ہیں کیونکہ اس کی قیمت پوپلر سے زیادہ ہے لیکن اسے پختہ ہونے میں کافی وقت لگتا ہے“

واضح رہے کہ کشمیر میں بننے والے کرکٹ بیٹ دنیا کی ستر فی صد مانگ کو پورا کرتے ہیں۔ صنعت کے مالکان بید کی کم ہوتی پیداوار سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں لیکن ابھی تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا

اسٹار کرکٹ اسپورٹس کے مالک اشفاق احمد نے بتایا ”ہم نے بید کی کمی کے حوالے سے حکومتی مداخلت کی درخواست کی، ہم نے دیگر اداروں سے بھی مدد مانگی اور ان سے کہا کہ وہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کریں تاکہ ایک کسان بھی بید کے درختوں کی اہمیت کو سمجھ سکے“

انہوں نے کہا ”اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے میرے پاس کچھ ذاتی مشورے ہیں، ایک تو یہ کہ کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ صرف بید کے درخت ہی لگائیں، دوسرا یہ کہ رہائشی علاقوں میں پوپلر کے درختوں پر پابندی عائد کی جائے۔ صحت کے مسائل اس سے جڑے ہوئے ہیں، ہم اسی زمین کو بید کی کاشت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، تیسرا سرکاری زمین کا استعمال ہے جو ہمارے مینوفیکچرنگ یونٹس کے قریب ہے۔ یہ تینوں آپشنز میرے اپنے نقطہ نظر سے کشمیر کی بلے کی صنعت کو بچانے کے لیے ہیں“

کشمیر کے کرکٹ بیٹ بنانے والے یونٹس اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور آنے والے مشکل وقت کو دیکھ رہے ہیں، کیونکہ بید کی پیداوار کم ہو رہی ہے، جس سے ان کے تیار کردہ کرکٹ بیٹس کے معیار پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ جبکہ اس قلت سے صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد کی روزی روٹی کو بھی خطرے میں ہے

پانچ سو کرکٹ بیٹ مینوفیکچرنگ یونٹس میں سے سو پہلے ہی خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close