رات کے آخری پہر کھڑکھڑاہٹ بڑھنے لگی، یوں لگا جیسے کوئی بہت بڑی قوت سب کچھ تخت و تاراج کرنے کے درپے ہے۔ شہربانو بستر پر مزید دُبک گئی۔ وہ بہت دیر سے ایسی آوازیں سن رہی تھی، جو اس سے قبل اس نے نہیں سنی تھیں۔ سماعت کو یکسو کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ آوازیں اس کی کتابوں کی الماری سے آر ہی ہیں۔ بمشکل تمام اس نے ہمت کی اور بستر سے لگا بتّی کا بٹن دبا دیا۔ روشنی ہوتے ہی آوازیں دب گئیں لیکن بتّی بند ہوتے ہی پھر وہی کھڑ بڑ۔۔
شہر بانو سرکاری جامعہ میں تاریخ کی استاد تھی۔ اسے اپنے مضمون سے عشق تھا۔ اس نے اقوامِ عالم کی تواریخ پر مشتمل نادر و نایاب کتب جمع کر رکھی تھیں۔ صبح وہ اُٹھی تو رات کی کسلمندی باقی تھی لیکن تجسّس نے الماری تک جانے پر آمادہ کیا۔ جیسے ہی اس نے الماری کھولی خاکستری، سفید، سیاہ رنگ کے چوہے ٹڈی دَل کی طرح اس کے پاؤں کے بیچ سے نکل نکل کر بھاگے۔ ان کی قوتِ شامہ ان کے بدنوں سے پھوٹی پڑ رہی تھی اور وہ کانپتی مونچھوں اور بال بھری دُموں سے اپنے وجود کی حرکت کو نمایاں کر رہے تھے۔ ان کی گہری چمک دار آنکھوں کا اسرار بتاتا تھا کہ وہ بہت کچھ ملیا میٹ کر دینا چاہتے ہیں گویا مفسد روحیں ان کے اندر حلول کر گئی ہوں۔
حکیم دینِ محمد مسجد سے واپس آ چکے تھے۔ حسبِ معمول ان کے شاگرد بھی ان کے ساتھ ہی نماز ادا کر کے آئے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے دیوان خانے کو مطب بنا رکھا تھا۔ یہی وقت ان کے درس و تدریس کا ہوتا تھا، اس کے بعد تو مریضوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ وہ شہر کے معروف حکیمِ حاذق تھے۔ انہیں باتوں ہی باتوں میں علم منتقل کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ اس وقت بھی ان کے سامنے قدیم حکما و اطبا کی کتابیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ بتا رہے تھے کہ ”حکیم اشرق بو علی سینا نے تشریح الاعضا کے معاملے میں قدیم اطبا کا تتبع کیا ہے لیکن ’کلیاتِ قانون‘ میں انہوں نے قدما کے خلاف سب سے پہلے فلسفے کو طب سے علاحدہ کیا۔“
اس وقت دیوان خانہ کاسنی، سنامکی، زعفران، اجوائن اور مختلف قسم کی پسی ہوئی یا سالم جڑی بوٹیوں سے مہک رہا تھا کہ انہیں اپنی اکلوتی چہیتی اولاد شہر بانو کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ چاندی کی موٹھ والی چھڑی ایک طرف دھر کے اُٹھے اور شہر بانو کے کمرے کی طرف لپکے۔ شاگرد بھی حیران و پریشان ہوئے۔ شہر بانو نے انہیں دیکھتے ہی زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ وہ فرش پر یوں بیٹھی تھی، جیسے کوئی ثروت مند رات ہی رات میں لٹ کے کنگال ہو گیا ہو۔ حکیم صاحب کے بار بار پوچھنے پر اس نے کتابوں کی الماری کی طرف اشارہ کیا اور بولی،
”بابا جان! تاریخِ عالم کی وہ کتب، جو میں نے برسوں میں جمع کی تھیں، انہیں وہ ایک ہی رات میں چٹ کر گئے۔“
”کون؟“
”چوہے۔۔۔۔“
”چوہے۔۔۔؟“ حکیم صاحب نے آس پاس دیکھا، چوہے کہیں نہیں تھے
”بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چھپ گئے ہیں لیکن میری کتابیں۔۔۔ دنیا بھر کی تواریخ پر لکھی گئی وہ نادر و نایاب اور مستند کتابیں، اب کہاں ملیں گی۔ آپ دیکھیں وہ کترنیں۔۔۔۔۔۔“
حکیم صاحب الماری کے قریب گئے۔ کچھ کتابیں جلد کی طرف سے، کچھ درمیان سے یوں کتری ہوئی تھیں کہ اب ان کے جڑنے کا امکان نہیں تھا۔ انہوں نے تاسف سے انہیں دیکھا لیکن بیٹی کو تسلی دینے کی خاطر پلٹتے ہوئے ہنس دیے اور بولے ”بیٹی، تاریخ کبھی مستند نہیں ہوتی۔ ہر قوم کا مورّخ اسے اپنے نکتۂ نگاہ اور مفاد کے پیشِ نظر تحریر کرتا ہے۔ تم چاہو تو یہ کام تم بھی کر سکتی ہو۔ اب پڑوس میں دیکھ لو۔ ان کے مورّخوں کا ایک گروہ تاریخ کو روشن خیالی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ دوسرا انتہا پسندی کی طرف گھسیٹ رہا ہے۔“
”اور بابا ہم؟“ شہر بانو نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
”ہم!“وہ پھر ہنسے، “ہم تو راہِ گم کردہ ہیں، ہماری تاریخ کے کئی صفحے گم گشتہ اور بریدہ۔۔۔۔۔۔۔۔“ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر بیٹی کو اٹھایا اور خود دیوان خانے کی طرف جانے لگے، جہاں ان کے شاگرد منتظر تھے
”بابا! کیا ہم تاریخ کے بغیر ہیں؟“ شہر بانو نے ڈوبتے لہجے میں پوچھا
”نہیں۔۔۔۔۔۔۔“ وہ جاتے جاتے رکے اور بولے ”اس کے شعور کے بغیر ہیں۔ البتہ تاریخ کے بغیر وہ ہے، جسے سب سلام کرنے پر مجبور ہیں۔“
سارا دن اضطراب کے اَن دیکھے بگولے میں پھنس پھنس کر گزرا۔ اس نے تیمور سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن گردشی فون بند تھا اور اسپتال سے یہی جواب ملتا کہ ڈاکٹر صاحب مصروف ہیں۔ وہ ساری دنیا سے بھی بات کر کے مطمئن نہیں ہو سکتی تھی، لیکن تیمور۔۔ اس سے گفتگو کا لطف کچھ ایسا تھا، جیسے اس کے نفس میں تیمور کی روح کے تانے بانے بُنے ہوں اور لفظ ان سے ٹکرا کر جھنکار پیدا کر رہے ہو۔ وہ جانتی تھی کہ محبت محض تصوراتی جذبہ ہوتا تو لوگ صدیوں سے اب تک اس میں مبتلا نہ ہوتے۔ لیکن وہ محبت کو اس کی فطرت کے مطابق بعید از قیاس اور رازِ سر بستہ بنانا نہیں چاہتی تھی۔ اسے آسان زندگی پسند تھی۔ اسے معلوم تھا، تیمور بھی محبت کی اذیت سے گزرنے والوں میں سے نہیں ہے۔
حکیم دین محمد کے بچپن کے ایک دوست قریبی ضلعے میں مقیم تھے، وہ بہت بڑے زمیندار تھے، ان کا بیٹا اعلیٰ اسناد کے حصول کے لئے سمندر پار گیا ہوا تھا۔ دونوں دوست دوستی کو رشتہ داری میں بدلنا چاہتے تھے لیکن تیمور کے دخل در معقولات نے حکیم صاحب کو آزردہ کر دیا تھا۔ انہیں اپنے زمیندار دوست کے بیٹے پر تو اعتماد تھا مگر تیمور کی مغربی وضع قطع اور خیالات سے انہیں کراہَت آتی تھی اور ہر قسم کی غیر شرعی اشیا کے استعمال و اعمال کی چھاپ اس پر نظر آتی تھی۔ تیمور بھی حکیم صاحب کو دیکھتے ہی مشکی گھوڑے کی طرح بدک جاتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اکیسویں صدی میں حکیم کا کیا کام۔۔ تیمور کا فلسفۂ محبت شہر بانو کے فلسفۂ محبت سے اتنا ہی مختلف تھا، جتنا مرد کا فلسفہ عورت کے فلسفے سے مختلف ہوتا ہے۔
لیکن جب شہر بانو نے اسے باور کرا لیا کہ بابا محبت کو گناہ کی ترغیب کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے، لہٰذا ممکن ہے کہ اسے بہت جلد زمیندار کی بہو بن کے جانا پڑے، تب تیمور کو عجلت میں منگنی کی انگوٹھی خریدنی پڑی۔ حکیم صاحب کے لئے شہر بانو کا یہ کہنا ناکافی تھا کہ ”دو رُوحوں کی یگانگت بڑی بات ہے۔“ البتہ یہ جملہ اثر انگیز تھا کہ ”ورنہ عمر تو بغیر کسی ساتھ کے بھی گزاری جا سکتی ہے۔“ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، سو انہوں نے طوعاً و کرہاً یہ رشتہ قبول کر لیا تھا۔
ڈاکٹر تیمور کے پاس صبح سے ایک ہی مرض میں مبتلا مریضوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ شدید بخار کی لپیٹ میں آئے مریضوں کی بغل میں، کان کے پیچھے، ران پر یا نرم گوشت کے کسی حصّے پر گلٹی نمودار ہو رہی تھی، جس کے گرد ورم تھا اور آس پاس کا حصّہ سبز مٹیالا ہو رہا تھا۔ مریضوں کی مسلسل قے سے پورا ماحول متعفن تھا۔ کچھ کے جسم میں خون جمنے کی وجہ سے کالے دھبے پڑ رہے تھے۔ کچھ کو خفقان اور بے ہوشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک سیاہ موت ہر سُو رقصاں تھی۔ اسپتال میں ہنگامی صورتِ حال کا اعلان ہو گیا تھا۔ بمشکل چند لمحے نکال کے ڈاکٹر تیمور نے شہر بانو کا نمبر ملایا۔ جس وقت فون کی گھنٹی بجی، شہر بانو برقی نشریاتی رابطے کے پردۂ تصویر پر چوہوں کے غول کو شہر بھر میں دوڑتا دیکھ رہی تھی۔
”تیمور تم خود تو خیریت سے ہو نا؟ یہاں بہت بھیانک خبریں نشر ہو رہی ہیں“، وہ بولی
”ہاں“ تیمور نے پژمردگی سے کہا۔ “شہر بھر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے تم اپنا خیال رکھنا۔۔۔ گھر سے باہر نہیں نکلنا اور اپنے حکیمِ حاذق باپ سے کہنا کہ وہ گھر کے اندر کھلے مطب کو تالا ڈال دیں، مریضوں کو اندر نہ آنے دیں“
”لیکن تم؟“
”مجھے حفاظتی تدابیر معلوم ہیں لیکن تمہارے حکیمِ حاذق کو نہیں۔“
وہ دیوان خانے کی طرف دوڑی، جہاں بابا کے شاگرد اور جڑی بوٹیاں کوٹنے والے لڑکے بیٹھے تھے اور بابا اپنی کرّاری آواز میں ان سے مخاطب تھے، ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ طاعون ایک بڑا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا۔ جب خدا چاہتا ہے کہ اپنی قضا و تقدیر کا نفاذ فرمائے تو اُن اسبابِ شرور کی معرفت، اس کے تصّور اور اس کی ارادت سے بندے کے قلب کو غافل کر دیتا ہے۔ پھر اسے اس کا شعور ہی نہیں رہتا، نہ کبھی اس کے ازالے کا اسے ارادہ ہی ہوتا ہے اور پھر باری تعالیٰ کی قضا و تقدیر کے احکام پورے ہو جاتے ہیں۔ بہرحال جوہر ہوا میں فسادِ وبا کا پھوٹ پڑنا طاعون کا ایک قوی سبب ہے۔“
”حکیم صاحب۔۔ کیا اس کا کوئی خاص زمانہ ہوتا ہے کوئی وقت؟“ ایک سہمے ہوئے شاگرد نے سوال کیا
”نہیں۔ عفونت اور زہریلی ردات وقت اور زمانے کی پابند نہیں ہوتی لیکن بقول بقراط خریف میں امراض کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہاں عطاروں، گورکنوں، غسالوں، کفن برداروں، کفن فروشوں کی چاندی خریف کے موسم میں ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ موت کا موسم ہوتا ہے، اس موسم میں امراض کثرت سے پھیلتے ہیں“ پھر وہ گلا کھنکھار کر بولے: ”چلو میرے بچو اٹھو۔۔۔ ہم گلی گلی محلّے محلّے جائیں گے، لوگوں کو اس وبا سے بچنے کی ترکیب بتائیں گے۔ ان سے کہیں گے کہ وہ اپنے بدن سے رطوباتِ فضلیہ کو نکالنے کی سعی کریں اور غذا کی مقدار کم سے کم کر دیں۔“
حکیم دین محمد اپنے قافلے کو لے کر باہر نکل گئے۔ شہر بانو آڑ میں کھڑی دیکھتی رہ گئی۔ اسے اپنے باپ کی سادگی پر رحم آیا۔ اس نے سوچا ابنِ آدم چوہوں سے زیادہ حریص ہے۔ اپنے حصّے سے زیادہ رزق پیٹ میں بھرنے یا اسے ضائع کر دینے کا متمنی۔۔۔ کون بھلا اس کے باپ کی بات مانے گا!
برقی نشریاتی رابطے کے پردۂ تصویر پر ہنگامی خبریں تسلسل سے آ رہی تھیں۔ مختلف علاقوں میں چوہوں کی یلغار دکھائی جا رہی تھیں۔ کچھ چوہے درخت پر چڑھ کر فصلوں کو خراب کر رہے تھے۔ کچھ بادامی اور سبزی مائل چوہے کھیتوں میں اپنی دُم شاخ سے لپیٹ کے لٹکے ہوئے غلّہ کتر رہے تھے۔ گھریلو چوہوں نے الگ قیامت ڈھائی تھی۔ اجناس کے علاوہ استعمال کی اشیا تک برباد کر دی تھیں۔ دریائی چوہے دریاؤں کے کناروں پر بنے بلوں سے باہر نکل آئے تھے اور اپنے نارنجی رنگ کے دانتوں سے پودے کتر رہے تھے۔ جنگلی چوہوں نے گھاس، بیج پھلوں کی گٹھلیاں ہضم کر لی تھیں اور یہ مفسد چوہے اب شہروں کا رُخ کر رہے تھے۔ کترنیے ایک بہت بڑی قوت بن کر اُبھر رہے تھے، ان کے چھینی نما اگلے دانت اور تین سے پانچ انگلیوں والے پنجے خوف اور تباہی کی علامت بن چکے تھے اور یوں لگ رہا تھا، جیسے یہ ساری دنیا کو ہڑپ کر جائیں گے۔
اب پردۂ تصویر پر منظر بدلنے لگے۔۔۔ ایک شہر سے دوسرا شہر، ایک ملک سے دوسرا ملک پھر ایک براعظم سے دوسرا براعظم۔۔۔۔ کترنیے بحرِ منجمد شمالی سے لے کر دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے دکھائی دینے لگے، ان کی ترت پھرت کے آگے زمینیں سکڑنے لگیں، براعظم معدوم ہونے لگے۔
شہر بانو نے دیکھا، اب پردۂ تصویر پر قیمتی تیل سے بھرے بڑے بڑے کنستر دکھائے جا رہے تھے، جن میں بے شمار سفید موٹے بھّدے چوہے اپنی خاردار دُمیں لٹکائے بیٹھے تھے۔ جب ان کی دُمیں تیل میں لتھڑ جاتیں تو وہ انہیں چاٹ لیتے۔ لمحوں میں کنستر کے کنستر خالی ہونے لگے۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ بس کیمرے کی آنکھ تھی جو خاموشی سے دیکھ اور دکھا رہی تھی۔ اچانک خاموشی ٹوٹی اور پس منظر میں ایک کُرلاتی آواز گونجی،
”ناظرین، اس وقت ہماری دنیا تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ہر چھ میں سے ایک شخص بھوک سے میرا مطلب ہے طاعون سے مر رہا ہے۔ آج دنیا کے دو سو پچیس امیر ترین افراد کی دولت دنیا کی سینتالیس فیصد آبادی کی دولت سے زیادہ ہے۔ معاف کیجے میں نے غلط صفحہ اُٹھا لیا تھا۔“
چوہوں کے پسِ منظر میں بولتی آواز کچھ دیر رُکی۔ کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی، پھر وہی لہجہ گونجا۔۔ ”دراصل ہم اپنے ناظرین کو بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا کے دو سو پچیس امیر ترین افراد، معاف کیجے دو سو پچیس کروڑ چوہوں نے دنیا کی سینتالیس فیصد آبادی کا رزق چٹ کر لیا ہے یا کُتر کے برباد کر دیا ہے یہ کترنیے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔“
اب ہنگامی نشریات کچھ دیر کے لئے معطل ہوئیں اور پردۂ تصویر پر چند مشہور و معزز شخصیات نظر آئیں، جو لوگوں کو مختلف پہلوؤں سے اصل صورتِ حال بتانے آئی تھیں۔ ایک بولا: ”یہ تباہی طاعون کی وجہ سے نہیں، ان چند سرمایہ داروں کی وجہ سے آئی ہے، جو نظامِ معیشت کو اپنی لونڈی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔“
دوسرے نے جذباتی انداز میں ہاتھ ہلائے اور کہا ”تباہی کی وجوہات واضح ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دنیا کے کئی خطّے جنگی جنون کی زد میں ہیں، جس سے دنیا بھر کی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور مہذب اقوامِ عالم اس بحث میں الجھی ہوئی ہیں کہ کون سے ہتھیار استعمال کریں، کون سے نہیں۔۔۔۔“
تیسرے نے کہا، ”یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ چوہوں نے، اور ان کے پسوؤں سے پھیلنے والے طاعون نے، ایک نئے انداز سے معیشت پر حملہ کیا ہے۔ تیل کے وہ کنویں جو ابھی کھدے نہیں۔ ان تک بھی چوہے پہنچ چکے ہیں۔“
درمیان میں بیٹھا ہوا میزبان ان کی آپس میں الجھنے والی بحث کو سمیٹنے کی ناکام سعی میں خاصا احمق لگ رہا تھا، بالآخر اسے بھی دو لفظ بولنے کا موقع ملا اور وہ بولا،
”اس کا کوئی حل؟ کوئی حل۔۔۔۔؟“
”رزق کی مساوی تقسیم۔۔۔۔“ پہلی شخصیت نے انگشت شہادت اُٹھا کے تیّقن سے کہا۔
”مساوات کا نعرہ یا تو سیاستداں ووٹ کی خاطر لگاتا ہے یا اوسط درجے سے کم مالی حالت رکھنے والا عام شہری۔۔۔۔ ورنہ مساوات پر مبنی یوٹوپیا کا وجود ممکن نہیں ہے۔“ دوسری شخصیت نے طنز بھری نظروں سے پہلی شخصیت کے معمولی لباس کو دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنے قیمتی کوٹ کا کالر چھوا
رات ہو گئی تھی۔ تیمور اور اس کے ساتھی ڈاکٹر طاعون کے مریضوں کو فوری طبی امداد دیتے دیتے نڈھال ہو گئے تھے۔ اسپتال کا مردہ خانہ ان مریضوں سے بھر گیا تھا، جن کے جسم پر نکلنے والی گلٹیاں سیاہ رنگ کی تھیں۔ تیمور اپنے کمرے میں بیٹھا کرسی کی پشت سے سر ٹکائے سستا رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے کوئی سیاہ شے لہراتی ہوئی گزری، اس نے تھکن سے مندی آنکھیں پوری طرح کھولیں۔ وہ ڈاکٹر فریحہ تھی، جس نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کا سفید کوٹ اس کے بازو پر لٹک رہا تھا۔ تیمور کے ڈاکٹر دوست پرویز نے تیمور کی محویت دیکھی تو کھنکھارا اور بولا، ”یہ ڈاکٹر فریحہ بھی چلتا پھرتا طاعون ہے۔“
”کیا مطلب!؟“ تیمور نے پوچھا
”جب سے اس اسپتال میں اس کی ملازمت شروع ہوئی ہے اور تمہیں پتا چلا ہے کہ اس کا باپ ایک مشہور صنعت کار ہے اور شہر کے وسط میں اس کے لئے عظیم الشان ذاتی اسپتال تعمیر کروا رہا ہے، تب سے تمہارے اندر بھی طاعون کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو تمہیں باقاعدہ خفقان کے دورے بھی پڑتے ہیں۔“
تیمور ہنس دیا ”تو گویا تمہیں صرف میری خبر ہوتی ہے۔۔ کبھی تم نے اس کے مرض کی بھی تشخیص کی ہے؟“
”بھئی اگر آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے، تو بے چاری شہر بانو کس مقام پر کھڑی ہے؟“ پرویز نے پوچھا
”شہر بانو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں رہتی ہے، جنہیں چوہے کُتر چکے ہیں اور اس کا حکیمِ حاذق باپ جالینوس کے زمانے میں رہتا ہے کہ جب تشخیصِ مرض کا انحصار تمام تر نبض کی حرکات دیکھنے پر تھا۔ جبکہ میں اس زمانے میں ہوں۔۔۔ جہاں جراثیم طبّی تجربہ گاہوں میں شیشے کی نلکیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ ہمارے زمانے، ہماری سمتیں کتنی مختلف ہیں۔“
”اور محبت؟“ ڈاکٹر پرویز نے پوچھا
”محبت!“ تیمور نے گہری سانس لی، ”محبت تو بس محبت ہوتی ہے وہ کوئی ذمہ داری تو نہیں ہوتی، جس سے دستبردار ہونے سے پہلے قانون اور شرع کا سامنا کرنا پڑے۔“
ڈاکٹر پرویز نے دیکھا، ڈاکٹر تیمور کی سیاہ آنکھیں چوہوں کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں، پھر وہ کرسی سے اُٹھا اور اس نے کھلے فرش پر یوں ہلکی سی چھلانگ لگائی، جیسے کوئی چوہا زندگی کی یکسانیت توڑنے کے لئے لگاتا ہے۔
شہر بانو کے گھر کے آگے ایک باغ تھا اور اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ دنیا کا آخری گھر ہو۔ وہ اکثر باغ میں ٹہلنے نکل آتی تھی۔ لیکن اس دن اسے باغ میں دیکھ کے بابا کے زمیندار دوست کے باغات یاد آ گئے۔ پھلوں سے لدے پھندے نہایت منافع بخش باغات اور بے حساب مربعے۔۔ اس نے سوچا، ان باغات اور مربعوں سے سال میں کتنی آمدنی ہو جاتی ہوگی۔ زمیندار صاحب کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کے لگتا ہے جیسے وہ نوابوں سے کم درجے کی زندگی تو نہیں گزارتے ہوں گے اور یہ راج پاٹ ان کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے ہی کے حصّے میں آئے گا۔ پھر اسے تیمور کا خیال آیا، سرکاری اسپتال کے ایک معمولی ڈاکٹر کی تنخواہ کتنی ہوگی؟ اس نے سوچا کیا گھر کی گاڑی چلانے کے لئے مجھے تمام عمر کند ذہن لڑکیوں کو تاریخ کے کھنڈرات سے بوسیدہ اوراق نکال نکال کر پڑھانے ہوں گے؟؟ پھر اسے بابا کی باتیں یاد آئیں۔ ایک دن انہوں نے کہا تھا، ’جس طرح زندگی اور موت دو سہیلیاں ہیں، انگلیاں تھام کے چلنے والی۔۔۔ اسی طرح محبّت کی بھی کچھ ہم جولیاں ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ تنہا رہ جاتی ہے۔۔ اُن میں تم حسن و جوانی کو شامل کر لو یا سیم و زر کو، لیکن تم محبّت کو مادّیت سے جڑا ہوا ہی پاؤ گی۔‘ بابا کیا پتے کی بات کہتے ہیں، وہ خود سے بولی۔ آخر کو انہوں نے قدیم حکما و اطبا کو ازبر کر رکھا ہے۔ پھر اسے تیمور کا خیال آیا۔ طاعون کی وبا پھیلے بہت روز گزر گئے تھے اور وہ ملنے نہیں آیا تھا، نہ ہی فون پر رابطہ کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے طاعون ہو گیا ہو۔ پھر اس نے سوچا، اگر وہ اتنے مریضوں کے درمیان سے زندہ بچ نکلا لیکن محبت کے محاذ پر ہار گیا تو کیا وہ مفتوح ہوگا؟ لیکن تاریخ نے اسے سکھایا تھا کہ جنگ کے اختتام پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ میں فاتح دراصل کوئی نہیں ہے، دونوں ہی مفتوح ہیں
ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ شہر بانو گھر کے اندر آ گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے سنگھار میز پر رکھی تیمور کی تصویر کو بغور دیکھا، جو عجیب سی لگ رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا، جیسے تیمور کے اگلے دانت کترنیے کی طرح چھینی نما ہو گئے ہیں۔ یک دم اسے اپنی انگلیوں میں کھجلی سی محسوس ہوئی۔ اس نے منگنی کی انگوٹھی کو گھمایا، اس کے نیچے گلٹی نمودار ہو رہی تھی۔۔ پھر اسے اپنی انگلیاں چوہوں کے پنجوں کی طرح مڑتی ہوئی دکھائی دیں، شدت سے اس کا جی چاہا کہ وہ ڈھیروں کڑکڑاتے کرنسی نوٹوں کو اِن پنجوں میں دبوچ لے۔