دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل، پی ڈی ایم حکومت کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟

ویب ڈیسک

گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے وزیراعلیٰ محمود خان کی جانب سے گذشتہ روز بھیجی جانے والی سمری پر بدھ کو دستخط کر دیے، جس کے ساتھ ہی صوبائی اسمبلی تحلیل ہو گئی تاہم صوبہ پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعلیٰ کے تعین پر ڈیڈلاک برقرار ہے

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد کیا ملک عام انتخابات کی طرف جائے گا یا وفاق میں موجود اتحادی حکومت الیکشن سے بچتے ہوئے صرف صوبوں میں انتخابات کا راستہ اپنائے گی؟

یہ وہ سوالات ہیں جو حالیہ دنوں میں سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر ہونے والے تبصرے اسی کے گرد گھوم رہے ہیں

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی ہے، لیکن مشکل اقتصادی صورتِ حال سے نبرد آزما وفاقی حکومت کے لیے نئے انتخابات کسی چیلنج سے کم نہیں

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان تواتر کے ساتھ وفاقی حکومت سے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جب کہ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے دباؤ کی ایک حکمتِ عملی سمجھی جاتی ہے

دوسری جانب وفاق میں قائم اتحادی حکومت کا مؤقف ہے کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر یعنی رواں سال اکتوبر میں ہی ہوں گے۔ ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا صرف دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے اور کیا وفاقی حکومت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بھی التوا میں ڈال سکتی ہے؟

مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک میں صوبوں اور وفاق میں الگ الگ انتخابات کی کوئی روایت نہیں ہے۔ کمزور معاشی صورتِ حال اور سیاسی بے یقینی کے ماحول میں دو الگ الگ انتخابات مناسب راستہ نہیں ہوگا

اس حوالے سے سابق وفاقی سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ملک کی انتخابی و سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا کہ دو صوبوں میں پہلے جب کہ وفاق اور دیگر دو صوبوں میں بعد میں انتخابات ہوں گے

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا کیونکہ صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں وزیرِ اعظم اور وفاقی وزرا انتخابی مہم کا حصہ نہیں بن سکیں گے

وہ کہتے ہیں کہ جب چند ماہ کے بعد وفاق میں انتخابات ہوں گے تو دو صوبوں میں نگران حکومتوں کی جگہ سیاسی حکومتیں ہوں گے جو کہ انتخابی عمل اور انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے کرے گا

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ممکن ہے کہ حکومت و حزبِ اختلاف بات چیت کے ذریعے قبل از وقت عام انتخابات کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس صورت میں عام انتخابات مئی جون میں ہو سکتے ہیں اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ملک کے صدر عارف علوی بھی ایسا عندیہ دے چکے ہیں

ان کی نظر میں وفاق اور صوبوں میں الگ الگ انتخابات کے تجربے سے وفاق کو نقصان ہو سکتا ہے

سابق نگران وزیرِ اعلیٰ اور سیاسی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ اصول اور قانون کے مطابق یہ بات ممکن ہے کہ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ انتخابات کرائے جائیں لیکن سیاسی اعتبار سے یہ آسان نہیں

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ناقابل عمل قسم کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے کہ دو صوبوں میں فوری انتخابات کرائے جائیں، جبکہ چند ماہ کے بعد وفاق اور دیگر صوبوں میں انتخابات ہوں

وہ کہتے ہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے باوجود ملک میں سیاسی بے یقینی برقرار رہے گی، ملک کی موجودہ معاشی حالت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی

گزشتہ انتخابات میں پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ رہنے والے حسن عسکری نے کہا کہ ملک میں نگران حکومتوں کے قیام کا نظام بھی اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات ہوں۔ الگ الگ انتخابات سے غیر جانبداری متاثر ہوگی، کیونکہ صوبوں میں انتخابات کے وقت وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں دخل دے گی اور جب وفاق میں انتخابات ہوں گے تو صوبائی حکومتیں اس عمل کی شفافیت کو متاثر کریں گے

تو پھر اتحادی حکومت کے پاس کیا راستہ ہے؟ اس سوال پر کنور دلشاد کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانا لازم ہیں اور الیکشن کمیشن چاہے تو اس میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کا مزید وقت لے سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ اس کی ایک مثال 2008 کے عام انتخابات ہیں جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث الیکشن کمیشن از خود انتخابات کی تاریخ کو آگے لے گیا تھا

وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کو 90 دن کے بجائے 120 دن میں کروانے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہوگی کیوں کہ آئین کی شق 234 بھی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر ناگزیر حالات پیدا ہوجائیں تو الیکشن کمیشن ایسے فیصلے لے سکتا ہے

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کو دیکھا جائے، تو اپریل میں رمضان ہوگا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اعتراض شروع کر دیے ہیں کہ رمضان میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں

کنور دلشاد کے بقول ایسے میں انہیں 90 روز کے اندر انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور آئین میں یہ شق موجود ہے کہ عام انتخابات سے چار ماہ قبل ضمنی انتخابات نہیں ہوسکتے تو ان حالات میں یہ صورت بھی نکل سکتی کہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن عام انتخابات تک چلے جائیں

حسن عسکری کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے لیے یہ مشکل صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے کیوں کہ وہ انتخابات سے بچنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ خراب معاشی حالات میں مہنگائی و بے روزگاری کے سبب حکومت کو اندیشہ ہے کہ عوامی رائے ان کے خلاف جا سکتی ہے

وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت انتخابات میں کچھ تاخیر تو کرسکتی ہے لیکن اسے اکتوبر میں عام انتخابات تک التوا میں نہیں ڈال سکتی، کیونکہ اتنا طویل عرصہ آئینی اعتبار سے قابلِ اعتراض بات ہوجائے گی

حسن عسکری کے خیال میں اگر وفاقی حکومت قبل از وقت عام انتخابات کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے لیے پنجاب و خیبر پختونخوا کے انتخابات میں کچھ تاخیر کرنا ممکن ہوپائے لیکن یہ تاخیر ایک ڈیڑھ ماہ سے زائد نہیں ہوسکے گی

دوسری جانب پیر کو عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس جا سکتے ہیں

انہوں نے کہا کہ سیاسی حکمتِ عملی کے تحت پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی واپس پارلیمنٹ جا سکتے ہیں کیوں کہ اگر وہ نہیں جاتے تو اس کے نتیجے میں حکومت اپنی مرضی سے نگران حکومت اور انتخابات کے حوالے سے فیصلے کرے گی

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے اس عندیے کے ساتھ ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 34 اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا استعفیٰ بھی منظور کر لیا گیا ہے

اسپیکر کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان اراکین کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔ جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے ہیں، ان میں سابق وزیرِ دفاع پرویز خٹک، فواد چوہدری، شہریار آفریدی، علی امین گنڈا پور، نور الحق قادری، مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، راجہ خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام سرور خان اور شیخ راشد شفیق بھی شامل ہیں

شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، ثناء اللہ مستی خیل، شفقت محمود، ملک عامر ڈوگر، فہیم خان، سیف الرحمٰن اور محمد عالمگیر کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے ہیں

خواتین کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کی زرتاج گل اور کنول شوزب کے استعفے بھی منظور کر لیے گئے ہیں

اسپیکر قومی اسمبلی نے ایسے وقت میں پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے ہیں جب تحریکِ انصاف نے عندیہ دیا تھا کہ صدرِ پاکستان وزیرِ اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں

یاد رہے کہ اپریل میں حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی ہو گئے تھے تاہم اسپیکر نے یہ استعفے تاحال منظور نہیں کیے

حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگر اتحادی حکومت عام انتخابات نہیں کراتی تو یہ امکان موجود ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلے

ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت انتخابات کو تاخیر کا شکار کرنا چاہے گی اور انہیں یہ احساس کم ہے کہ غیر یقینی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ملک میں ایک وقت میں انتخابات ضروری ہیں

صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی عمران خان کی حکمتِ عملی سے سیاسی فائدے پر گفتگو کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ بادی النظر میں عمران خان کی حکمتِ عملی کامیاب دکھائی دے رہی ہے تاہم آنے والے دنوں میں اس کے نتائج مختلف بھی نکل سکتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اب جبکہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں صوبائی حکومت ختم ہوچکی ہے، تو ان کی قانونی اور عدالتی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ عمران خان بہت سے مقدمات کا پہلے سے سامنا کر رہے ہیں، اگر وہ ان میں سے کسی کی زد میں آتے ہیں تو اس سے سیاسی صورتِ حال بھی بدل سکتی ہے

حسن عسکری کہتے ہیں کہ عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے بظاہر وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے انہیں کیا سیاسی فائدہ ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close