250 ارب کی جائیداد وراثت میں پانے والے نظام مکرم جاہ، جن کی وفات دو کمرے کے فلیٹ میں ہوئی!

ویب ڈیسک

بھارت میں حیدرآباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان کے پوتے مکرم جاہ بہادر کے انتقال کے ساتھ ہی نظام دور کا اختتام ہو گیا۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا

ماضی کی نظام شاہی سلطنت حیدرآباد کے آٹھویں نظام نواب میر برکت علی خان والاشان مکرم جاہ بہادر چار روز قبل 89 برس کی عمر میں ترکی کے شہر استنبول میں فانی دنیا کو خیر باد کہہ گئے تھے۔ وہ کافی عرصے سے استنبول میں مقیم تھے

مکرم جاہ کی اپنے آبائی وطن میں دفن ہونے کی خواہش کے پیشِ نظر 17 جنوری کو ان کی میت حیدرآباد دکن لائی گئی، جہاں آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد انہیں بدھ کی شام مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد کے کھنڈاری قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا

آخری رسومات ادا کرنے کے تمام انتظامات تلنگانہ حکومت، نظاہ ہشتم کے اہل خانہ اور ٹرسٹیز کے تعاون سے کیے گئے

مکرم جاہ کون تھے

مکرم جاہ حیدرآباد پر حکومت کرنے والے آخری نظام میر عثمان علی خان بہادر کے پوتے تھے۔ میر عثمان علی خان نے 1948ع تک حیدرآباد پر حکومت کی۔ وہ ساتویں نظام تھے

مکرم جاہ بہادر کی پیدائش 1933 میں فرانس کے شہر نیس میں ہوئی تھی۔ نواب میر عثمان علی خان نے ان کو اپنا جانشین قرار دیا تھا، جن کے 1967 میں انتقال کے بعد مکرم جاہ بہادر کی مسند نشینی کی تقریب حیدرآباد کے مشہور چومحلہ پیلس میں ہوئی تھی

مکرم جاہ نے ابتدائی تعلیم دورادہن میں حاصل کی، اور بعدازاں اعلی تعلیم کے حصول کی غرض سے لندن گئے، جہاں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ میں داخلہ لیا

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق عثمان علی خان نے اپنے بیٹوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے پوتے مکرم جاہ کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق اپریل سنہ 1967ع میں تاجپوشی کی تقریب کے بعد مکرم جاہ باقاعدہ طور پر آٹھویں نظام بن گئے۔ تاج پوشی کی یہ تقریب چومحلہ محل میں ہوئی

اس کے بعد وہ بھارت سے آسٹریلیا چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد انہوں نے ترکی کو اپنا مسکن بنایا۔ بعد ازاں وہ مستقل طور پر وہاں آباد ہو گئے۔

نہ ختم ہونے والی دولت کا خاتمہ

حیدرآباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ’سیاست‘ کے مطابق ساتویں نظام کے جانشین کے طور پر مکرم جاہ دنیا کے ’سب سے بڑے خزانے‘ کے مالک بن گئے

لیکن پرتعیش طرزِ زندگی، جائیدادوں اور شاہی محلات کی دیکھ بھال میں غفلت اور مہنگے زیورات پر بے دریغ خرچ کرنے کی عادت کی وجہ سے ان کی تمام دولت خرچ ہو گئی

مکرم جاہ کو لگ بھگ پچیس ہزار کروڑ روپے کی جائیداد وراثت میں ملی تھی اور جب یہ وراثت ان کو منتقل ہوئی تو اُس وقت اُن کی عمر صرف تیس سال تھی

اسّی کی دہائی تک مکرم جاہ ہندوستان کے امیر ترین شخص تھے، تاہم 90 کی دہائی میں طلاق کے تصفیے کے لیے وہ کچھ اثاثے کھو بیٹھے۔ اس وقت ان کی اثاثوں کا مجموعی تخمینہ ایک ارب امریکی ڈالر لگایا گیا تھا

1937 میں ٹائم میگزین نے مکرم جاہ کے دادا اور حیدرآباد کے ساتویں نظام میر عثمان علی خاں کی تصاویر سرورق پر چھاپی اور انہیں دنیا کا مالدار ترین شخص قرار دیا۔ اس وقت ان کی دولت کا تخمیہ دو ارب ڈالر لگایا گیا تھا

نظام کی اپنی کرنسی اور اپنی ٹکسال (سکے بنانے والی مشین) تھی

انہیں مہنگی گاڑیاں اور کاریں چلانے کا شوق تھا، اور ان کے پاس دس کروڑ پاؤنڈ سونا اور 40 کروڑ پاؤنڈ کے جوہرات بھی تھے

انہوں نے اپنے قیام کے لیے آسٹریلیا میں ایک جائیداد بھی خریدی رکھی تھی

زندگی بھر بیٹھ کر کھانے کی عادت اور اپنے پُرتعیش طرز زندگی پر بےتحاشہ اخراجات کرنے کی وجہ سے انہیں زندگی کے آخری دنوں میں دو کمروں والے ایک فلیٹ میں رہنا پڑا

بہرحال، مکرم جاہ کی وفات سے ایک تاریخی وراثت کا خاتمہ ہو گیا

حیدرآباد میں نظام شاہی سلطنت کا آغاز سنہ 1724 میں نظام الملک سے ہوا۔ نظام خاندان نے حیدرآباد دکن پر سنہ 1724 سے 1948 تک حکومت کی

شادیاں

مکرم جاہ بہادر کی پانچ شادیوں میں سے کوئی بھی کامیاب نہ رہ سکی

انہوں نے پہلی شادی 1959 میں ایسریٰ برگین سے کی جو ایک ترک رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں

دوسری شادی سال 1979 میں سابق ایئر ہوسٹس اور بی بی سی کی غیر مسلم ملازمہ ہیلن سیمنز سے کی، جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا، اور نام بدل کر عائشہ رکھ لیا

عائشہ کے انتقال کے بعد مکرم جاہ نے 1992 میں سابق مس ترکی منولیا اونور سے شادی کی، اور اسی سال سابق مس مراکش جمیلہ بولروس سے شادی رچائی، جبکہ دو سال بعد (1994 میں) آپ شہزادی عائشہ آرچیدی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے

مکرم جاہ کے دادا یعنی ساتویں نظام کون تھے؟

آصف جاہ مظفر الملک سر عثمان علی خان، جو برطانوی حکومت کے بہت وفادار تھے، سنہ1911ع میں حیدرآباد کی شاہی ریاست کے حکمران بنے

22 فروری 1937ع کو ’ٹائم میگزین‘ میں میر عثمان علی پر ایک کور اسٹوری شائع ہوئی، جس میں انہیں ’دنیا کا امیر ترین آدمی‘ قرار دیا گیا تھا

ساتویں نظام کے پاس 282 کیرٹ والا ایک ہیرا بھی تھا۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے ہیروں میں سے ایک ہے۔ اسے دیکھنے والوں کے مطابق یہ ہیرا ایک چھوٹے لیموں کے سائز کا تھا

نظام اسے چوروں سے بچانے کے لیے صابن کے ڈبے میں چھپا کر رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اس بڑے ہیرے کو پیپر ویٹ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے

حیدرآباد ان تین شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد بھارت کے ساتھ الحاق سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم حکومت ہند نے 1948 میں پولیس ایکشن کے بعد اس ریاست کو اپنے ساتھ ضم کر لیا

حیدرآباد میں نظام کی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد حکومت ہند نے نظام کے حامیوں قاسم رضوی اور لئیق احمد کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ لئیق احمد حراست سے فرار ہو کر بمبئی (اب ممبئی) ہوائی اڈے پر پہنچ گئے اور وہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان چلے آئے

حکومت ہند نے ساتویں نظام اور ان کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ ساتویں نظام میر عثمان علی خان اور ان کے خاندان کو ان کے اپنے محل میں رہنے کی اجازت دی گئی

حیدرآباد کے ساتھ بھارت کا الحاق

اگست 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد نظام میر عثمان علی خاں نے خودمختار ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم ستمبر 1948ع کو بھارتی افواج نے ریاست حیدرآباد پر حملہ کیا اور صرف پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے

آصف جاہ نے اپنے پوتے نواب میر برکت علی خان بہادر مکرم جاہ کو اپنا جانشین منتخب کیا، اور 1967 میں وہ حیدرآباد کے آخری نظام بنے

حیدرآباد ریاست بھارت میں شامل ہونے والی 562 ویں شاہی ریاست تھی۔ حکومت ہند اور ساتویں نظام کے درمیان 25 جنوری 1950 کو ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت حکومت انہیں سالانہ 4,285,714 روپے کا پرائیو پرس دینے کا فیصلہ کیا تھا

ساتویں نظام نومبر 1956 تک حیدرآباد کے گورنر بھی رہے۔ حکومت ہند کی طرف سے کی گئی تنظیم نو کے مطابق پرانی نظام ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کر کے تین نئی ریاستیں تشکیل دی گئیں اور آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر ریاستیں معرض وجود میں آئیں۔ حال ہی میں آندھر پردیش سے ایک نئی ریاست تلنگانہ نکلی ہے اور حیدرآباد اسی کا دارالحکومت ہے۔

ساتویں نظام کی وفات 24 فروری 1967 کو ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close