”ان حالات میں کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے“ کراچی میں تاجروں نے اپنے کاروبار کی چابیاں گورنر اسٹیٹ بینک کو پیش کر دیں

ویب ڈیسک

ملک کی ابتر معاشی صورتِ حال کے باعث جہاں مہنگائی سے پریشان عوام دہائیاں دے رہے ہیں، وہیں تاجر برادری کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس کی مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب کراچی میں ایک تاجر نے یہ کہتے ہوئے کہ ’موجودہ حالات میں کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے‘ اپنے کاروبار کی چابیاں گورنر اسٹیٹ بینک کو پیش کر دیں

یہ واقعہ بدھ کو پیش آیا، جب گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کراچی چیمبر آف کامرس سے وابستہ تاجروں سے ملاقات کرنے آئے۔ اس موقع پر تاجروں نے نہ صرف ان کے سامنے خود کو درپیش مسائل اور شکایات رکھیں بلکہ انہیں اپنے کاروبار کی چابیاں بھی پیش کر دیں

تاجروں کا کہنا تھا کہ اب وہ کاروبار کرنے کے قابل نہیں رہے اور ان کے کاروبار اسٹیٹ بینک یا حکومت ہی سنبھال لے

تاجر حضرات نے شکایت کی ہے کہ حکومت کی جانب سے زیادہ تر خام مال اور تیار مال منگوانے پر غیر اعلانیہ پابندی نے ان کے لیے کاروبار جاری رکھنا انتہائی دشوار بنا دیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ بندرگاہ پر منگوائے گئے مال کو ریلیز نہ کرنے کے سبب انہیں اس مال سے زیادہ کے ڈیمریجز کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں، جبکہ چند سو ڈالر کی چیز منگوانا بھی ناممکن ہو چکا ہے

تاجروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ہے، لیکن جس قدر شرح سود پاکستان میں بڑھائی گئی، کہیں نہیں بڑھی جبکہ صنعتیں چلانے کے لیے سرمایہ نہ ہونے کے باعث وہ ملازمتیں ختم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں

معروف صنعتکار زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ درآمدی پابندیوں سے تمام بڑی صنعتیں بشمول ایکسپورٹ سیکٹر بری طرح متاثر ہوا ہے، اگر یہی صورتِ حال مزید دو ماہ تک برقرار رہی تو اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے پاس ڈالروں کی اس قدر کمی ہے کہ وہ بنیادی طبی آلات درآمد کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے

ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران کے دوران باعث تاجروں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے، اور حکومت تاحال اس سے نمٹنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی

یاد رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چھ جنوری کو اعلان کیا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے سات ارب ڈالر کے پروگرام کے نویں جائزہ کو حتمی شکل دینے کے لیے "جلد” پاکستان کا دورہ کرے گی جو گزشتہ سال نومبر سے رکا ہوا ہے

تاہم اس اعلان کو کئی دن گزر جانے اور پھر اس دوران وزیرِ خزانہ سے آئی ایم ایف کے پاکستان مشن چیف سے بھی ملاقات کے باوجود ابھی اب تک آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آئی اور نہ ہی اس کی جانب سے پروگرام جاری رکھنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے آئی ہے

سنگین معاشی صورتِ حال میں حکومت کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر، برآمدات، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں شرح مبادلہ کا فرق بڑھتا جا رہا ہے

اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے اس کے پاس صرف 4.34 ارب ڈالرز کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بچے ہیں، جن میں سے سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے ڈپازٹس بھی شامل ہیں اور انہیں حال ہی میں رول اوور کیا گیا ہے

دوسری جانب اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں تقریباً 30 روپے سے زائد کا فرق ہو چکا ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں جمعرات کے روز ایک امریکی ڈالر کی قیمت 229 روپے 15 پیسے تھی جب کہ مارکیٹ میں ڈالر 260 روپے کا بھی دستیاب نہیں

بعض معاشی ماہرین کے خیال میں حکومت نے محض اپنی ساکھ بچانے کے لیے جان بوجھ کر مصنوعی طریقے سے اس کی قیمت میں کئی ماہ سے استحکام رکھا ہوا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ترسیلاتِ زر مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ دسمبر میں بینکوں کے ذریعے بیرون پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں مسلسل چوتھے ماہ میں کمی دیکھی جا رہی ہے

دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد نے تاجروں کو یقین دلایا ہے کہ حکومت آنے والے چند ہفتوں میں قومی خزانے میں ڈالرز کی آمد میں اضافے کی توقع کر رہی ہے

اُن کے بقول صورتِ حال میں بہتری نظر آئے گی اور اسٹیٹ بینک ایل سیز کھولنے کے لیے تقریباً گیارہ ہزار کیسز کا بیک لاگ ختم کرنے کی بھی کوشش کرے گا

کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ خوراک، ادویات اور تیل کو ترجیح میں رکھا جائے گا۔ برآمدات کے لیے درکار درآمدی خام مال کو ترجیح دی جائے گی

لیکن معاشی تجزیہ کار زیادہ پرامید نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے ”ملک گیر سطح پر ایسے اتفاق کی ضرورت ہے، جس میں معیشت کو دوبارہ سے ٹریک پر لانے کے لیے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو کچھ اُصول طے کرنا ہوں گے

ڈاکٹر اقدس افضل کے بقول نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی رول اوورنگ کے لیے دوست ممالک سے رجوع کرنا ہوگا ۔لیکن یہ بھی کافی نہیں ہے

ان کا کہنا تھا کہ معاشی بہتری کی کنجی اس وقت حکومت ہی کے پاس ہے لیکن وہ اس بارے میں فیصلہ کرنے سے کترا رہی ہے، کیوں کہ اسے نہیں معلوم ہے کہ مشکل فیصلہ کرنے کے بعد حکومت کو چلتا ہی نہ کر دیا جائے

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مشکل معاشی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ملک کے اندر جن معاشی اصلاحات کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جارہی ہے انہیں آج نہیں تو کل نافذ کرنا ہی ہوگا

◼️کیا سعودی عرب کا دوست ممالک کی مشروط مالی مدد کا اعلان پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب سے فوری امداد کی توقع کر رہا ہے، سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اتحادی ممالک کو دی جانے والی مالی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جا رہا ہے، یعنی بغیر کسی شرط کے براہِ راست گرانٹس اور ڈپازٹس کی پالیسی کو بدل کر اب دوست ممالک میں معاشی اصلاحات پر زور دیا جائے گا

ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا ان دوست ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس اعلان سے پاکستان کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق نئی سعودی پالیسی سے پاکستان اور افریقہ سمیت دنیا کے مختلف خطے اور ممالک متاثر ہوں گے۔

ایک جانب جہاں معاشی ماہرین اس بیان کو پاکستان کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دے رہے ہیں وہیں پاکستانی حکام، جن کے مطابق سعودی عرب کے اعلان کا جائزہ لیا جا رہا ہے، نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئی شرائط کا اطلاق پہلے سے کیے جانے والے وعدوں پر نہیں ہوگا

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کی تقریب کے دوران محمد الجدعان نے کہا ’ہم براہ راست گرانٹس اور ڈیپازٹس دیتے ہیں جن میں کوئی شرائط عائد نہیں کی جاتیں اور اب ہم اسے تبدیل کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں اور یہی امید کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں۔ ہم مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اپنے طور پر کام کریں۔‘

خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں، پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے ایک دن بعد، سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی حکام کو تاکید کی تھی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں سعودی ڈیپازٹس کی رقم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر غور کریں

◼️آئی ایف پروگرام کی بحالی، حکومت تمام شرائط پوری کرنے کو تیار

اب اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی بحالی کے لیے اس کی چار بڑی شرائط قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے جلد از جلد اپنا وفد پاکستان بھیجنے کی درخواست کی ہے، جو طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہے

ایک سرکاری عہدیدار نے کہا ہے ”جنیوا کانفرنس کے دوران بات چیت کی بنیاد پر ہم نے چار اہم شرائط پر اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں کی گئی اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہم مجوزہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بات چیت کے دوران تمام فیصلوں کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں“

سیکریٹری خزانہ حمید یعقوب نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف مشن کو پاکستان کا درورہ کرنے کے لیے لکھ دیا ہے۔

آئی ایم ایف شرائط کو نافذ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بات چیت میں شامل ایک اور سرکاری افسر نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن کو راضی کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ تمام فیصلوں میں اہم چیلنجز شامل تھے اور جب تک جوابی اقدامات کے ساتھ توازن برقرار نہ رکھا جائے تو پہلے سے ہی تباہی کا شکار معیشت کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے چار بڑے مطالبات تھے، جن میں مارکیٹ کی بنیاد پر شرح مبادلہ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، اضافی ٹیکس عائد کرنا تاکہ سیلاب کے اخراجات کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ پروگرام کے اہداف کے اندر مالیاتی خسارے پر قابو پایا جا سکے

حکومتی اراکین نے کہا کہ آئی ایم ایف کی تمام بڑی شرائط کا نفاذ ’عام لوگوں‘ پر نہیں ہوگا اور ’مخیر حضرات‘ پر اس کا بوجھ پڑے گا

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے، اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو آئی ایم ایف مشن واپس جاکر پیش رفت نہ ہونے کی رپورٹ دے گا، مگر پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close