وہ الاسکا کے ایک چھوٹے سےقصبے کی میئر تھی اور 1998 میں پہلی بار منتخب ہونے کے بعد 2017 میں اپنی زندگی کے آخری دن تک اس عہدے پر رہی۔
سال 2013 میں وہ اپنی بھولی صورت اور سادہ رہن سہن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ اس کی مقبولیت امریکہ کی سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا تک پھیل گئی۔ اس لیے جب بیس برس کی عمر میں وہ دنیا سے رخصت ہوئی، تو عالمی سطح پر اخبارات میں اس کی موت کی خبریں شائع ہوئیں
یہاں بات ہو رہی ہے ’اسٹیبز‘ نامی بلی کی، جو انیس سال تک امریکہ کی ریاست الاسکا میں ٹالکیٹنا نامی قصبے کی میئر رہی اور اس کے بعد یہ عہدہ ڈینالی کے سپرد کردیا گیا، جو اسیٹبز کی طرح ایک بلی ہی تھی
اس سارے تذکرے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سینکڑوں انسانوں کی آبادی رکھنے والے قصبے میں کوئی انسان نہیں تھا، جو میئر بننے کی ذمے داری ادا کر سکتا؟ اس کے علاوہ بھی ایک بلی کے میئر بننے کے بارے میں کئی دیگر سوال ذہن میں آتے ہیں
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دنیا بھر میں انتخابی قوانین کے مطابق امیدواروں کے لیے کچھ شرائط ہوتی ہیں۔ انہیں اپنی ذمے داریاں انجام دینے کے لیے قابلیت ثابت کرنا ہوتی ہے۔ کسی عہدے کے لیے عمر کی حد بھی ہوتی ہے۔ انہیں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنے اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں تو ان جیسی شرائط کے باجود الاسکا کی اسٹیبز کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں کس طرح جانور کسی علاقے کے میئر کا عہدہ حاصل کر لیتے ہیں؟
اس سوال کے ایک سے زیادہ جوابات ہیں۔
عام طور جن علاقوں میں جانوروں کو میئر بنانے کا اعلان کیا جاتا ہے تو یہ عہدہ محض اعزازی اور نمائشی ہوتا ہے اور اس کا مقصد مقامی سطح پر معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سیاحت کو فروغ دینا ہوتا ہے
اسٹیبز کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ جب الاسکا کے خوبصورت قصبے ٹالکیٹنا کی اعزازی میئر بنی، تو دور دور سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے آنے لگے
الاسکا کی ایک مقامی نیوز ویب سائٹ کے مطابق اسٹیبز کو اعزازی میئر بنانے کی خبر سے اس قصبے کو اتنی شہرت ملی کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آنے لگی
حتیٰ کہ الاسکا نیوز سروس کے مطابق اسٹیبز کی شہرت سن کر بعض خاندانوں نے ٹالکیٹنا نقل مکانی کر لی، کیوں کہ بلی کے اعزازی میئر ہونے کی خبر سے انہیں یہ تاثر ملا تھا کہ اس قصبے کا ماحول بچوں کے لیے بہت اچھا ہوگا
قانونی معلومات فراہم کرنے والی ’رائٹرز‘ کی ویب سائٹ ’فائنڈ لا‘ کے مطابق بلی یا کتے جیسے جانوروں کو میئر بنانا بنیادی طور پر تشہیر کا ایک طریقہ ہے۔ اس لیے کئی شہر اور قصبات میں دہائیوں سے کتے، بلی اور ان جیسے دیگر جانوروں کو میئر بنایا جاتا رہا ہے
اس سلسلے میں امریکی ریاست کینٹکی کے قصبے ’ریبٹ ہیش‘ کا نام بھی بہت مشہور ہے، جہاں 2008 کے بعد سے مسلسل میئر کے اعزازی عہدے پر پالتو کتے کو منتخب کیا جاتا ہے
البتہ تشہیر کے اس انوکھے انداز کو کئی مرتبہ سیاسی احتجاج اور آگاہی فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے
اس سلسلے میں اگلی کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ سن 1938ع میں واشنگٹن کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان اپنے ماہانہ اجلاس کے لیے جمع ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد ملکی سطح پر نمائندگی کے لیے ایک ’کمیٹی مین‘ کا انتخاب کرنا تھا۔ اس عہدے کے لیے نامزدگیاں تحریری طور پر جمع ہونا تھیں، جن میں سوائے ’مسٹر بوسٹن کرٹس‘ کے کسی کا نام موصول نہیں ہوا
بوسٹن کرٹس کے انتخاب کے بعد پتا چلا کہ وہ کوئی انسان نہیں بلکہ ایک خچر ہے، جسے مقامی میئر کینتھ سائمنز نے نامزد کیا تھا
کینتھ سائمنز نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ وہ ’کمیٹی مین‘ کی نامزدگی کے لیے اس خچر کو کورٹ ہاؤس بھی لے کر گئے تھے اور نامزدگی کے کاغذات پر بطور دستخط اس کے ُکھروں کا نشان بھی لگوایا تھا!
سائمنز کے بقول، انہوں نے یہ شرارت دراصل ان لوگوں پر طنز کرنے کے لیے کی تھی، جو بغیر سوچے سمجھے کسی کو بھی ووٹ دے دیتے ہیں۔۔
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی طنز یا احتجاج کے طور پر جانوروں کو انتخابی میدان میں اتارا جاتا رہا ہے۔ 1954ع میں برازیل کے شہر فورٹا لیزا میں شہریوں نے حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے ایک بکری کو سٹی کونسل کا رکن منتخب کیا تھا
اس کے چار سال بعد ساو پاؤلو شہر میں مقامی افراد نے احتجاجاً ایک گینڈے کو سٹی کونسل کے نمائندے کے لیے نامزد کیا تھا اور دلچسپی کی بات دیکھیے کہ اس نے اپنے مقابل انسان امیدوار سے زیادہ ووٹ لیے تھے!
سال 2013ع میں میکسیکو کے ایک شہر زلاپا میں ’مورس‘ نامی بلی کو بھی شہریوں نے میئر کے انتخابات میں امیدوار نامزد کیا تھا۔مورس کے نام سے ایک فیسبک پیج بھی بنایا گیا تھا، جس پر ایک لاکھ سے زائد لائکس تھے۔ یہ بھی سیاسی قیادت پر طنز کی ایک کوشش تھی
میئر کے لیے مورس کو امیدوار بنانے کی مہم مقامی طلبہ چلا رہے تھے۔ ان کا نعرہ تھا ”چوہوں کو ووٹ دیتے دیتے تھک گئے ہیں؟ تو بلی کو ووٹ دیجیے“
مہم چلانے والے طلبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مورس دوسرے سیاستدانوں کے مقابلے میں اپنے سارے وعدے پورے کرے گی۔ وقت پر سوئے گی، کھائے گی، جماہیاں لے گی اور گند میں کھیلے گی
مورس کا نام میئر کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے بیلٹ پیپر پر تو نہ آیا لیکن اس مہم سے عام ووٹرز اور سیاسی رہنماؤں کو ایک پیغام ضرور مل گیا
امیدواروں سے بے زاری کے اظہار کے لیے روس میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ سائبیریا کے ایک شہر برنول میں ہونےوالے میئر کے انتخاب میں بھی امیدواروں سے ناخوش شہریوں نے بارسک نامی بلی کو میئر کے لیے نامزد کیا تھا
ایک آن لائن پول میں نوے فی صد رائے دہندگان نے بارسک کو دیگر چھ امیدواروں کے مقابلے میں بہتر امیدوار قرار دیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران اس بلی کے بل بورڈ بھی آویزاں کیے گئے تھے
مقامی کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں کے مطابق بارسک کی بطور میئر امیدوار پذیرائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہریوں کو کسی بھی امیدوار پر اعتماد نہیں ہے
کئی مرتبہ کسی عوامی بہبود کے منصوبے کے لیے عطیات جمع کرنے کے مقصد کے تحت بھی جانوروں کو میئر بنایا جاتا ہے
امریکہ کی ریاست ورمونٹ میں فیئر ہیون نامی ایک قصبے کے رہنے والوں نے کھیل کے میدان کی تعمیر کے لیے 2018ع میں ’لنکن‘ نامی ایک بکری کو اعزازی میئر منتخب کیا۔ اس بکری کو میئر منتخب کرنے کے بعد فیئرہیون کے لوگ اپنے کھیل کے میدان کے منصوبے کے لیے دس ہزار ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے
اس کے بعد ’مرفی‘ نام کے ایک کتے کو بھی علاقے کا میئر بنایا گیا۔ کرونا وبا کے دوران میئر مرفی کی مالک خاتون نے اس کی تصویر والے ماسک فروخت کر کے پانچ ہزار ڈالر جمع کیے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس پلے گراؤنڈ کی تعمیر کے لیے رقم جمع کرنے کی خاطر مرفی کو میئر بنایا گیا، وہاں خود اس کا داخلہ منع تھا!
فائنڈ لا نامی قانونی معلومات کی ویب سائٹ کے مطابق زیادہ تر شہروں میں جانوروں کو تکنیکی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے، لیکن بعض اوقات علاقائی سطح پر قانون میں اس کی گنجائش نکال لی جاتی ہے
کئی مرتبہ اس عہدے پر منتخب ہونے والے جانور میئرز کی حیثیت صرف علامتی ہوتی ہے یا پھر ان کے مالکان ان کے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان کی جگہ کسی انسان کو اختیارات کے استعمال کے لیے منتخب کر دیا جاتا ہے۔