زمین کے ٹھوس اندرونی حصے کا سائز پلوٹو کے برابر ہے اور یہ لوہے کا گرم گولہ ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس نے باقی سیارے کی طرح گھومنا بند کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ الٹی سمت میں بھی گھوم رہا ہو
واضح رہے کہ ہماری زمین کی اندرونی مرکزی تہہ (ارتھ کور) ہمارے سیارے کی سب سے زیادہ پراسرار چیز ہے اور اس کے بارے میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں اکثر اوقات حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں
اس بارے میں تازہ ترین تحقیق، جو رواں ماہ جریدے ’نیچر جیو سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے، میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ زمین کا اندرونی مرکزی حصہ اپنی رفتار میں سست ہو گیا ہے اور یہ سطح زمین کی مخالف سمت میں گردش کرنا شروع کر سکتا ہے
تحقیق کاروں کے مطابق یہ کسی قدرتی یا الہامی اشارے کا پیش خیمہ تو نہیں مگر یہ زمین کے گردش کرنے کی رفتار کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سست روی کے باعث زمین کے دن اور رات کے اوقات میں معمولی فرق پڑ سکتا ہے اور زمین کی کشش ثقل میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے مگر اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے
چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے جیو فزیسٹ اور تازہ شائع ہونے والی تحقیق کے مصنفین میں سے ایک، سونگ ژاؤڈونگ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اس بات کے واضح ثبوت ملتے ہیں کہ زمین کا مرکزی حصہ (کور) سطح زمین سے زیادہ تیزی سے گھوم رہا تھا، لیکن 2009 کے آس پاس یہ رُک گیا۔‘
زمین کا اندرونی مرکز لوہے اور نکل کی دھات پر مشتمل ایک کرہ ہے جس کا نصف قطر (ریڈئس) 1,221 کلومیٹر ہے۔ زمین کا یہ اندرونی حصہ بہت گرم ہے۔ اس کا درجہ حرارت 5,400 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو سورج کے 5700 ڈگری سینٹی گریڈ کے تقریباً برابر ہے
اس مرکزی حصہ کے ارد گرد مائع دھاتوں کی ایک موٹی پرت ہے، جنہیں بیرونی کور یا بیرونی حصہ کہا جاتا ہے
زمین کا یہ اندرونی مرکزی حصہ کس طرح گردش کرتا ہے اس بارے میں جاننا کئی دہائیوں سے سائنسدانوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے
نئی تحقیق میں کیا ہے؟
زمین کے مرکز کو ’سیارے کے اندر ایک سیارہ‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ مائع دھاتوں کی ایک موٹی تہہ میں تیرتا ہے اور یہ آزادانہ طور پر گردش کر سکتا ہے
زمین کے مرکزی حصہ کو مکمل طور پر مطالعہ کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ سطح زمین سے پانچ ہزار کلومیٹر کی گہرائی میں ہے۔ اس کے بارے میں ہم جو کچھ تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ زلزلوں اور ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہروں میں معمولی فرق کی پیمائش سے حاصل ہوتا ہے
نئی تحقیق کے مصنفین، سونگ ژاؤڈونگ اور یانگ یی نے گزشتہ چھ دہائیوں میں مختلف زلزلوں کے تجزیے سے زمین کے مرکز میں پیدا ہونے والے ارتعاش کا تجزیہ کیا ہے
ان کی جانب سے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو دی گئی وضاحت کے مطابق ان کا نظریہ نہ صرف یہ دلیل دیتا ہے کہ ’زمین کا اندرونی کور جھولے کی طرح ایک طرف سے دوسری طرف گھومتا ہے، بلکہ یہ سات دہائیوں کے چکروں میں ہوتا ہے اور ہر پینتیس سال بعد اس کی گردش کی سمت میں تبدیلی آتی ہے۔‘
ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق، آخری بار اس کی سمت 1970ع کی دہائی کے اوائل میں بدلی تھی اور اگلی تبدیلی 2040ع کی دہائی کے وسط میں ہوگی
دوسرے الفاظ میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہو گا۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ گردش تقریباً دن کی طوالت میں ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت رکھتی ہے، جو کہ زمین کو اپنے خط مستقیم پر گھومنے کے عین وقت میں چھوٹی تبدیلیاں ہیں
ابھی تک زمین کے بنیادی حصہ میں تبدیلی کے اثرات کا سطح زمین پر فرق پڑنے کے بارے میں زیادہ ثبوت نہیں ملے ہیں، حالانکہ محققین کا خیال ہے کہ زمین کی تمام تہوں کے درمیان روابط ہیں
سائنسدان یانگ اور سونگ کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ان کے نتائج ’محققین کو ایسے تجرباتی ماڈل بنانے کی ترغیب دیں گے جو زمین کو ایک مربوط متحرک نظام کے طور پر دیکھتے ہیں‘
تاہم دیگر ماہرین نئی تحقیق کے متعلق احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور دوسرے نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے زمین کے مرکز کے بہت سے جاری اسرار کے بارے میں انتباہ کرتے ہیں
ایسے میں ایک بڑا سوال جو اب بھی باقی ہے، وہ یہ ہے کہ یانگ اور سونگ کی طرف سے بیان کردہ سست روی کو دیگر تحقیقات میں بتائی گئی تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہر زلزلہ پیما جان وڈیل نے پچھلے سال ایک تحقیق شائع کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ زمین کا بنیادی حصہ بہت تیزی سے گھومتا ہے اور ہر چھ سال یا اس کے بعد اپنی گردش کی سمت بدلتا ہے
ان کی تحقیق 1970ع کی دہائی میں دو ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی زلزلے کی لہروں میں تبدیلی پر بنیاد کرتی تھی
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے جیو فزیکسٹ ہرووجی کالسیک نے ایک دوسری تحقیق شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ زمین کے مرکز کی گردش کے چکر ستر کے بجائے بیس یا تیس سال کے درمیان رہتے ہیں
ان تحقیقوں میں فرق کے باعث جان وڈیل ہمارے سیارے کے پراسرار دل (کور) کے متعلق ’مزید حیرت انگیز‘ رازوں کی پیش گوئی کی ہے
مجموعی طور پر زمین ہے کیسی؟
زمین کی سطح جسے ’قشتر ارض‘ کہا جاتا ہے، دراصل نہایت باریک سی جھلی ہے۔ یہ سطح زیادہ سے زیادہ ستر کلومیٹر گہری ہے۔ زمین کا ’اِنر کور‘ یا ٹھوس مرکزہ لوہے اور نکل کا بنا ہوا ہے، جبکہ ’آؤٹر کور‘ یا مرکزے کا بیرونی حصہ لوہے اور نکل کی مائع شکل میں ہے۔ اس بیرونی مرکزے اور زمین کی بیرونی سطح کے درمیان کا فاصلہ تقریباﹰ دو ہزار نو سو کلومیٹر کا ہے۔ زمین کا ٹھوس مرکزہ مجموعی طور پر قریب چھبیس سو کلومیٹر کا ہے، جب کہ آؤٹر کور ساڑھے بائیس سو کلومیٹر کا
زمین کے مرکزے میں لوہے کی موجودگی اور پھر زمین کی اپنے محور پر حرکت کی وجہ سے زمین اپنے گرد ایک مقناطیس میدان بناتی ہے۔ یعنی یوں کہنا مناسب ہوگا کہ زمین ایک گھومتا ہوا مقناطیس بھی ہے۔ اسی مقناطیس کی وجہ سے سورج سے نکلنے والی تابکار شعاعیں اور ذرّات زمین کی سطح پر نہیں پہنچ سکتے بلکہ زمین کا الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ یا برقناطیسی میدان انہیں باہر ہی سے دفع کر دیتا ہے، جبکہ ایسے ذرّات جو زمین تک پہنچتے بھی ہیں، وہ بھی قطبین کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ قطب شمالی حتیٰ کہ یورپ کے انتہائی شمالی علاقوں میں ناردرن لائٹس اسی مظہر کا ثبوت ہیں۔ اگر زمین کا مقناطیسی میدان موجود نہ ہو، تو سورج کی تابکار شعاعیں زمین پر زندگی کا خاتمہ کر دیں
پھر زمین کا کرہ ہوائی، یعنی زمین کے سطح سے اوپر چاروں جانب ایک نظر نہ آنے والے غبارے کی طرح بہت سی گیسوں کی موجودگی زمین پر زندگی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہی کرہ ہوائی زمین کی جانب بڑھنے والے خلائی پتھروں کو رگڑ کی قوت کے ذریعے ہوا میں ہی جلا کر خاک کر دیتا ہے۔ اگر یہ کرہ ہوائی نہ ہو، تو بھی زمین پر زندگی کا کوئی امکان بھی باقی نہ بچے۔