سعودی عرب، جہاں کچھ عرصہ قبل خواتین کو کار ڈرائیو کرنے کی اجازت ملنے کی خبر حیرت کے ساتھ پڑھی گئی تھی، اب وہاں تربیت مکمل کرنے والی بتیس خواتین ٹرین ڈرائیوروں نے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے
یہ خواتین سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان چلنے والی ’حرمین ایکسپریس ٹرین‘ ڈرائیو کرنے والے عملے میں شامل ہوں گی
سعودی ریلوے کمپنی نے اس موقعے پر ایک وڈیو جاری کی، جس میں خواتین ٹرین ڈرائیور کی تربیت سے لے کر ان کی عملے میں شمولیت کے مختلف مراحل دکھائے گئے ہیں
سعودی حکام کے مطابق حرمین ایکسپریس دنیا کی تیز رفتار ترین ٹرینز میں شمار ہوتی ہے۔ یہ بلٹ ٹرین 453 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے
وڈیو کے مطابق تربیت یافتہ خواتین اس بات پر فخر کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ٹرین چلانے والی خواتین کے پہلے دستے میں شامل ہیں
تارا علی عازمین کو مکہ لے جانے والی ہائی اسپیڈ ٹرین چلانے والی پہلی سعودی خواتین ڈرائیورز میں سے ایک ہیں
تارا علی گذشتہ سال حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے میں خواتین ڈرائیورز کے لیے مختص بتیس سیٹس کے لیے درخواست دینے والی تقریباً اٹھائیس ہزار درخواست گزاروں میں سے ایک تھیں
حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کے درمیان ساڑھے چار سو کلومیٹر کا راستہ تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کرتی ہے
انگلش کی سابقہ ٹیچر تارا علی ان چند خوش نصیب خواتین میں شامل تھیں، جو اس نیٹ ورک کا حصہ بنیں اور جنہوں نے گذشتہ ماہ اپنا پہلا سفر مکمل کیا
تارا علی نے اس بارے میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ”یہاں کام کا پہلا دن، جب میں پہلی بار ٹرین کے کیبن میں داخل ہوئی، یہ میرے لیے ایک خواب جیسا تھا“
انہوں نے مزید کہا ”جب آپ کیبن میں ہوتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ چیزیں بہت تیز رفتاری سے آپ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ایک خوف اور ڈر کا احساس مجھ پر طاری ہو گیا لیکن خدا کا شکر ہے کہ وقت اور سخت ٹریننگ کے ساتھ مجھ میں خود اعتمادی آتی گئی“
خاتون ٹرین ڈرائیور کا کہنا تھا کہ عمرہ اور حج کی ادائیگی کے لئے آنے والے زائرین کی خدمت کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہوگا
واضح رہے کہ ملک کی افرادی قوت میں سعودی خواتین کا تناسب 2016ع کے بعد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، جو اب سترہ فی صد سے بڑھ کر سینتیس فی صد تک جا پہنچا ہے
یہ اعداد و شمار ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پالیسی کا نیتجہ ہیں، جنہوں نے خواتین کے حقوق کو وسعت دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے
ان اعداد و شمار نے سعودی پالیسی سازوں کے لیے بدلتی ہوئی معیشت میں حصہ لینے میں نئی دلچسپی رکھنے والی تمام خواتین کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ریلوے نیٹ ورک میں خواتین ڈرائیورز کی تعیناتی اسی نئے منظر نامے کا ثبوت ہے
سعودی خواتین نے روایتی طور پر تعلیم اور طب جیسے چیدہ شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ لیکن کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کو ختم کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں متعارف کرائے گئے قوانین اور ڈریس کوڈ کی پابندیوں میں نرمی نے ان کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں
ان ملازمتوں میں ویٹر، شیف اور ہوٹل ریسپشنسٹ جیسی نئی ملازمتیں شامل ہیں، جن پر پہلے غیر ملکیوں کا غلبہ تھا لیکن اب حکومت کے ’سعودائزیشن‘ ایجنڈے کے تحت سعودی خواتین معاشرے کا فعال حصہ بن رہی ہیں
خواتین کے لیے اب سماجی رویے بھی بدل رہے ہیں ، جیسا کہ ٹرین ڈرائیورز نے خود ان کا مشاہدہ کیا ہے
حال ہی میں بطور ٹرین ڈرائیور بھرتی ہونے والی ایک اور سعودی خاتون رنیم عزوز نے کہا ”مدینہ کے ایک سفر کے اختتام پر ایک خاتون مسافر نے حیرت کا اظہار کیا کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ خواتین بھی ایسا کام کر سکتی ہیں“
رنیم کہتی ہیں ”ان خاتون کا کہنا تھا کہ سچ کہوں تو جب میں نے اس (نوکری) کا اشتہار دیکھا تو میں اس کے بالکل خلاف تھی۔ میں نے کہا کہ اگر میری بیٹی مجھے ڈرائیو پر لے جائے گی تو میں اس کے ساتھ سواری نہیں کروں گی“
بہرحال سفر کے بحفاظت مکمل ہونے کے بعد مسافر خاتون نے خوشی کا اظہار کیا کہ عزوز نے خود کو ثابت کیا اور انہیں سفر میں کچھ مختلف محسوس نہیں ہوا
مقامی آن لائن اخبار ’سعودی گزٹ‘ کے مطابق سعودی عرب کی ٹرانسپورٹ جنرل اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حرمین ایکسپریس کے ڈرائیورز میں خواتین کی شمولیت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خواتین کے کردار کی حوصلہ افزائی کا تسلسل ہے
سعودی ریلوے کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر ریان الحربی کے مطابق یہ خواتین ڈرائیور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے تربیت کے دوران اپنی قابلیت ثابت کی ہے
حکام کے مطابق خواتین کو حقیقت سے قریب ترین سیمیولیٹرز کے ذریعے ٹرین چلانے کی تربیت دی گئی تھی
یہ سیمیولیٹرز ٹرین کے حقیقی کیبن کی طرز پر تیار کیے گئے تھے، جن میں تمام موسمی حالات اور تکنیکی مسائل سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی تھیں
ریان الحربی بتاتے ہیں ”یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب سعودی خواتین اپنے بھائیوں کی طرح کام انجام دینے کے لیے بااختیار ہیں کیوں کہ ان میں مکمل صلاحیت موجود ہے.“