ایک خلاباز، جو پراسرار حادثے کے نتیجے میں خلا سے سیدھا زمین پر آ گِرا۔۔۔

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے اپریل 1967ع میں پیش آنے والے خلابازی کی تاریخ کے ایک خوفناک حادثے کی۔۔ سوویت یونین نے اپنے خلائی مشن ’سویوز-ون‘ کو پیش آنے والے تباہ کن حادثے اور خلائی جہاز میں موجود خلاباز کی موت کا اعلان کیا، جو میں سوویت یونین کے اس وقت کے سب سے بہترین خلا باز ہلاک ہو گئے تھے

چالیس سالہ کرنل ولادیمیر کوماروف کسی بھی خلائی حادثے میں ہلاک ہونے والے دنیا کے پہلے خلا باز ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار خلا باز تھے اور اپنی دوسری خلائی پرواز کے دوران زمین پر واپس آنے سے پہلے کے اپنے تمام تجربات کامیابی سے مکمل کر چکے تھے

لیکن خلائی جہاز کے زمین پر لینڈنگ کرنے سے محض چند منٹ قبل جیسے ہی وہ زمین کی فضا میں داخل ہوئے، تو ان کے خلائی جہاز کی زمین کی جانب اترنے کی رفتار کو کم کرنے والے پیراشوٹ کی تاریں آپس میں الجھ گئیں اور وہ سیدھے زمین پر آن گرے اور ہلاک ہو گئے

خلائی جہاز بلندی سے زمین پر آن گرا تھا اور کرنل کوماروف اس ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے جھٹکے کے باعث موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے

ولادیمیر کوماروف 16 مارچ 1927ع کو ماسکو میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی عمر میں ان کو ریاضی اور ہوا بازی میں گہری دلچسپی تھی۔ وہ فلائٹ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس وقت کے سوویت یونین کے بہترین ٹیسٹ پائلٹ بن گئے تھے

اس دور میں سوویت یونین خلا میں جانے کی اس دوڑ میں ہر لحاظ سے آگے تھا، انہوں نے پہلا خلائی جہاز ’سپتنک‘ خلا میں بھیجا تھا، اسی طرح پہلی بار ’لائیکا‘ نامی کتیا کو خلا میں بھیجنے کا تجربہ کیا گیا تھا، جبکہ امریکہ ان معاملات میں روس کی پیروی کر رہا تھا

یہ وہی سال تھا، جس میں امریکہ کے خلا میں جانے کے مشن ’اپولو-ون‘ میں بھی لانچ پیڈ پر سوار تین خلا باز آگ لگنے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے

ماسکو کی جانب سے اس تباہ کن خلائی حادثے کے متعلق بہت کم تفصیلات فراہم کی گئیں اور تباہ ہونے والے خلائی جہاز کی آخری پرواز کے آخری لمحات سے متعلق بہت سے اسرار آج بھی باقی ہیں

کوماروف نے اس سے قبل سنہ 1964ع واسکوڈ نامی خلائی جہاز میں اپنی پہلی خلائی پرواز کامیابی سے مکمل کی تھی

کوماروف کی جانب سے اپنی پہلی تاریخی خلائی پرواز مکمل کرنے کے اگلے دن لینوڈ برہزیف اس وقت کی سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے پرعزم سویوز خلائی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی

خلائی مشنز کے ماہر صحافی رچرڈ ہولنگھام کہتے ہیں ’یہ ایک خطرناک خلائی مشن تھا، سوویت یونین کوماروف کو خلا میں بھیجنے کے بعد ایک اور مشن میں دو ارکان کو بھیجنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ جہاں ان دونوں خلائی جہازوں کی ملاقات ہونا تھی جہاں کوماروف نے ایک خلائی جہاز سے دوسرے خلائی جہاز میں منتقل ہونا تھا اور اس میں بیٹھ کر واپس زمین پر آنا تھا‘

مگر جیسے جیسے اس مشن کے آغاز کی تاریخ قریب آ رہی تھی، یہ واضح ہو رہا تھا کہ سویوز-ون خلائی جہاز میں کچھ خرابیاں تھیں۔ اگرچہ سویوز-ون خلائی جہاز کو ایک جدید اور بھاری قسم کے خلائی جہاز کے طور پر جانا جاتا تھا، جسے سوویت یونین کی جانب سے چاند پر انسان کو بھیجنے کی کوشش کے لیے بنایا گیا تھا، اور کرنل کوماروف کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ حادثے کے وقت اس کا تجربہ کر رہے تھے

اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سویوز-ون خلائی پرواز شروع سے ہی مسائل کا شکار تھی، اور یہ کہ یہ جہاز انسانوں کی پرواز کے لیے تیار نہیں تھا

مگر لینن کی سالگرہ کی مناسبت سے خلائی کارنامے دکھانے کے سیاسی دباؤ کے باعث انجینیئرز کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا

صحافی رچرڈ کہتے ہیں کہ سنہ 1967ع کا سوویت یونین کا خلائی مشن خامیوں سے بھرا ہوا تھا اور اسے عجلت میں بنایا گیا تھا

لیکن تمام تر خدشات کے باوجود سویوز-ون مشن کو 23 اپریل 1967ع کو کامیابی سے خلا کی جانب بھیجا گیا

صحافی رچرڈ بتاتے ہیں ’کرنل کوماروف کو پرواز کے وقت ہی پتہ تھا کہ جہاز میں کوالٹی کنٹرول کے مسائل ہیں۔ اور جیسے ہی وہ خلا میں پہنچے تو خلائی جہاز کے نظام نے کام کرنا چھوڑ دیا۔‘

وہ کہتے ہیں ’اس جہاز کو توانائی فراہم کرنے والی سولر پلیٹس بھی خلا میں نہیں کھلی تھیں جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔‘

سویوز-ون مشن میں مسائل کے بعد سویوز ٹو کو خلا میں بھیجنے کا مشن منسوخ کر دیا گیا اور کوماروف کو حکم دیا گیا کہ وہ واپس زمین کی جانب رُخ کرنے کی کوشش کریں۔

ماسکو میں نامہ نگاروں کو یہ اشارے ملے تھے کہ گذشتہ روز سے پرواز کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا، جب ماسکو ریڈیو پر اس سے متعلق پہلے کی رپورٹس اچانک نشر ہونا بند ہو گئیں اور تقریباً تیرہ گھنٹے تک خلائی پرواز کا کوئی ذکر نہیں تھا

اس حادثے کے محرکات سے متعلق بات کرتے ہوئے ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کرنل کوماروف نے خلائی جہاز سے باہر نکلنے کے لیے ایجیکشن سسٹم کا استعمال کیوں نہیں کیا

صحافی رچرڈ ہولنگھام کے مطابق ’ایسا محسوس ہوا تھا کہ اس تباہ کن خلائی مشن کے باوجود وہ زمین پر اترنے میں کامیاب ہو رہے تھے مگر اس وقت پیراشوٹ میں خرابی پیدا ہوئی اور وہ سیدھے زمین پر آ گرے۔‘

اس حادثے کے بعد ایسی قیاس آرائیاں بھی کی گئی کہ اس تباہ کن مشن کے دوران کوماروف سوویت سائنسدانوں سے رابطے میں تھے اور انہوں نے سوویت یونین کو غلطیوں سے سیکھنے کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خلاباز کو دل کی تکلیف بھی لاحق تھی

کوماروف سے متعلق اکثر یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہیں پتا تھا کہ وہ زندہ زمین پر واپس نہیں آ سکیں اور اسی لیے انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی لاش کو عوام کو دکھایا جائے تاکہ سوویت رہنماؤں کو شرمندہ کیا جا سکے

تاہم رچرڈ ہولنگھام کہتے ہیں کہ ’اس متعلق کوئی شواہد نہیں ہیں اور وہ ایک محب وطن شخص تھے جو اس طرح کے پراپیگنڈے سے مخالفوں کی مدد کرنے کا سوچ نہیں سکتے تھے‘

ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک تعزیتی پیغام میں انھیں ’مادرِ وطن کا ایک وفادار بیٹا‘ اور ’خلا کا ایک دلیر متلاشی‘ قرار دیا گیا

کرنل ولادیمیر کا 26 اپریل 1967ع کو ماسکو کے ریڈ سکوائر پر سرکاری اعزاز کے ساتھ جنازہ ہوا اور انہیں ان کی بہادری کے لیے ملک کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز گولڈ سٹار دیا گیا

ان کی باقیات کو کریملن کی دیوار میں دفنایا گیا جو بطور ایک سوویت شہری کے سب سے اعلیٰ اعزاز ہے

کرنل کوماروف کی ہلاکت کی خبر کو امریکہ میں افسوس اور تشویش کے طور پر دیکھا گیا اور امریکہ کے خلائی مشن کے سربراہ جیمز ویب نے خلائی دریافتوں کے لیے وسیع تعاون پر زور دیا

ٹیکساس میں کام کرنے والے 47 امریکی خلابازوں کی ٹیم نے اپنے روسی حریفوں کو تعزیتی ٹیلی گرام بھیجا تھا

اس واقعے کے بعد بھی سوویت یونین مزید دو سال تک خلائی دوڑ پر غلبہ حاصل کرتا رہا، جب تک کہ امریکہ نے سنہ 1969ع میں اپولو 11 مشن کے ساتھ پہلا انسان چاند پر نہیں اُتارا

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے روس اور امریکہ نے مل کر خلا میں وسائل اور ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے۔ اب دونوں قومیں خلا میں ایک مشترکہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی شراکت دار ہیں جو 2000ع میں شروع ہوا تھا

اس نے سوویت خلائی پروگرام کی آخری علامت خلائی اسٹیشن ’میر‘ کی جگہ لی ہے، جسے 2001ع میں زمین پر واپس گرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close