’جائیدادیں تو بِک گئیں لیکن قانون ٹھیک سمجھ میں آ گیا۔‘
دکھی دل کے ساتھ سہیل بھائی نے اپنی زبان میں جو محاورہ بولا اس کا مطلب یہی تھا۔ قصہ وہی تھا کہ آن لائن گاڑی بیچنے کا اشتہار دینے کے بعد ان سے فراڈ ہو چکا تھا
گاڑی چوری ہو گئی، ون فائیو پہ کال کر دی، دو تین دن لگے ایف آئی آر کٹوا لی گئی، اب وہ تفتیش شروع ہو گی کہ جس میں بقول سہیل بھائی خود آپ کو جیمز بانڈیت دکھانی پڑے گی، ورنہ منا بھائی بس لگے ہی رہیں گے
سب سے پہلے آپ کو ملزم کی کال ریکارڈ ہسٹری نکالنا پڑے گی یا پولیس بھی نکلوائی جا سکتی ہے، ایک ایک نمبر بہرحال آپ کو خود چیک کرنا پڑے گا۔ کس کو کال کی، کس وقت کی، کون ملزم کا شریک جرم ہو سکتا ہے اور اگر کوئی نہیں بھی ہے تو کیا اُس کی مدد سے تفتیش آگے بڑھ سکتی ہے یا نہیں؟ یہ سارے سوال دماغ میں لے کر آپ کو ہر قدم پولیس کی رہنمائی میں کھوج لگاتے رہنا ہوگا
ایک اہم بات جو اس تفتیشی گفتگو میں پتہ چلی وہ یہ تھی کہ فراڈ کرنے والے زیادہ تر اپلائیڈ فار گاڑیاں شوق سے ہتھیاتے ہیں کیونکہ ان کی رجسٹریشن نہیں ہوتی، پوچھ گچھ کے بغیر آرام سے فروخت ہو جاتی ہیں
ان فون نمبروں کو جب سہیل بھائی نے کال کیا جو حاجی صاحب نے ملائے تھے تو پتہ چلا کہ زیادہ تر نمبر انہی لوگوں کے تھے جن کی گاڑیاں اپلائیڈ فار تھیں
اسی دوران ایک مرحلہ موٹر ویز اور جی ٹی روڈ پہ کیمرے چیک کرنے کا تھا کہ اگر سہیل بھائی کی گاڑی نکلی تو کس شہر گئی اور آخری مرتبہ کیمرے نے اسے کس شہر کا رخ کرتے ہوئے نوٹ کیا۔ اس مقصد کے لیے سیف سٹی اتھارٹی کے دفتر سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ جتنا دیر سے جائیں گے اتنا زیادہ فوٹیج کا ریکارڈ ہوگا
اب سہیل بھائی والے کیس میں یہ کوئی دو یا تین دن بعد گئے تو جلدی کُھرا نکل آیا کہ ان کی گاڑی موٹر وے چوک اسلام آباد کی طرف جاتی ہوئی دیکھی گئی تھی
گاڑی موٹروے پر چڑھی اور پشاور کی طرف جاتی دکھائی دی۔ یہاں سے فوٹیجز کا ایک اور سمندر تھا کہ جس کے پار اترنا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ اب موٹر وے کا سسٹم سینٹرلائزڈ** ہے، جس شہر سے گاڑی موٹر وے پہ آئی اور جس جگہ اُتری، سب کچھ ایک سینٹرل دفتر (آئی جی موٹر وے کنٹرول روم) سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ سہیل بھائی کے مطابق پہلے ایسا نہیں تھا
اسلام آباد سے پشاور تک جتنے ایگزٹ ہیں (تقریباً 20 یا 22) ان ساروں پر اس مخصوص وقت کے دوران کی فوٹیج دیکھنا تھی جب ان کی چوری شدہ گاڑی موٹر وے پر چڑھی
فرض کیا دن میں دو بجے گاڑی اسلام آباد سے پشاور کے لیے موٹر وے پر آئی، برھان تک پہنچنے میں ایک سے سوا گھنٹہ لگ سکتا ہے تو وہ احتیاطاً پونے دو سے لے کر چار بجے تک کی کیمرہ ریکارڈنگ چیک کریں گے، اور یہ ہر ایگزٹ پہ جا کے کرنا ہو گا۔ حساب لگائیں ذرا کتنے گھنٹے بنتے ہیں؟ اس پورے کام میں سہیل بھائی کو تین دن لگے
گاڑی فتح جنگ سے نکلی اور جی ٹی روڈ پہ اتر گئی۔ یہاں بھینس بالکل پانی میں ہی چلی گئی کیوں کہ آگے کہاں گئی، یہ معلوم کرنے کے لیے اب تک کوئی کیمرے نہیں ہیں۔ شہروں میں جاتے تو پورا پاکستان کھنگالنا پڑتا لیکن کچے میں اتر کے گاڑی اگر پرزوں میں تقسیم ہو کر باہر آئی تو کون کسے پکڑ سکتا ہے؟
اب پھر تھانہ تھا، عدالتیں تھیں، تاریخیں تھیں اور سہیل بھائی تھے۔ کہتے ہیں کہ ’اتنا کبھی میرا سکول بیگ بھاری نہیں ہوا جتنے کاغذوں کی فائلیں گاڑی چوری والے بستے میں بھری ہوئی ہیں۔‘
ایک سال کے عرصے میں ’روزانہ تین، چار یا پانچ چکر میرے تھانے کے لگتے تھے۔‘ اس میں صرف شناخت پریڈ یا کوئی دوسرا تفتیشی مرحلہ شامل نہیں تھا، مقدمے کا ایک کاغذ بھی اگر ریکارڈ میں درکار ہوتا تو وہ ان کو اسی دن پہنچانا ہوتا تھا
دوران تفتیش یہ بھی پتہ چلا کہ جو شخص اس سارے فراڈ کا ماسٹر مائنڈ تھا، اس پہ گیارہ کیسز مزید بھی ہیں یعنی یہ ڈان کا بارہواں فراڈ تھا!
’ان بارہ کیسوں میں سے بھی نو میں وہ اشتہاری ہے! باقی دونوں بندے جو گرفتار ہوئے تھے، چھ ماہ بعد وہ بھی ضمانت پہ رہا ہو چکے۔‘ اب کیس عدالت میں ہے اور سہیل بھائی اللہ کے آسرے پر!
پیغام کُل ملا کر ان کا یہی ہے کہ:
سارے مالی لین دین کے معاملات بینک کے اندر بینک اوقات میں کریں۔
گاڑی لینی ہو تو پہلی ترجیح کسی جاننے والے کو دیں۔
آن لائن اشتہاروں پہ خریدوفروخت کرنے میں ویب سائٹ کی ایک فیصد بھی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ اس پورے کیس میں جس ویب سائٹ پہ اشتہار تھا، غور کریں اس سے ایک بار بھی پولیس نے رابطہ کیا نہ سہیل بھائی نے۔
بہتر یہ ہے کہ شوروم کے کسی ایجنٹ کو درمیان میں ڈال کر گاڑی کی خریدوفروخت کریں تاکہ کسی انسان کا چہرہ تو سامنے ہو۔
شوروم کا بیس تیس ہزار کمیشن بچانے کے چکر میں پوری گاڑی مت گنوائیں، اپنی ذمہ داری پہ میدان میں اترنے سے گریز کریں۔
آخری بات یہ کہ اگر ’فراڈ ہو گیا تو بس صبر کریں، جان کا روگ مت بنائیں، اللہ اور دے گا، آسرا رکھیں، صحت مند رہیں، حق حلال کے پیسے ہیں تو واپس مل ہی جائیں گے۔‘
* باڑیاں بکی گئیاں پر قانوناں دے واقف ہوئی گئے آں (پوٹھوہاری ہندکو)
**موٹروے کا کیمرہ سسٹم نہ صرف اب سینٹرلائزڈ ہے بلکہ ایم تھری اور ایم فائیو پہ ہر پانچ کلومیٹر بعد کیمرے موجود ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)