وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 یا منی بجٹ کے تحت ان کی جانب سے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اکٹھے کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے
منی بجٹ سے مختلف شعبوں میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے اور گیس، بجلی، پیٹرول اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان عام آدمی کو بُری طرح متاثر کرے گا
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں اٹھائے گئے ٹیکس اقدامات میں سب سے نمایاں سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنا ہے
معاشی ماہرین کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والا اضافہ دراصل مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ سیلز ٹیکس کھپت، یعنی اشیا کے استعمال، پر لگتا ہے اور اس اضافے سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کی قیمت ایک عام صارف کو ادا کرنا پڑے گی
ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس امپورٹ اسٹیج سے لے کر چیزوں کی فروخت پر لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب کوئی شے درآمد کی جائے گی تو اضافی سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا تو درآمدی چیز مہنگی ہو جائے گی
اسی طرح ملک کے اندر تیار ہونے والے اشیا کی فروخت پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب وہ چیز صارف خریدے گا تو اسے اضافی قیمت ادا کرنا پڑے گی
واضح رہے کہ وفاقی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، لیکن ماہرین اس دعوے کو محض ڈھونگ قرار دے رہے ہیں
اشفاق حسن نے گندم، دال، گوشت وغیرہ کو حکومت کی جانب سے اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیلز ٹیکس ایسی چیزوں پر لگتا ہے، جو پیکجنگ میں آتی ہیں۔ جن چیزوں کو مستنثیٰ قرار دیا گیا ہے وہ تو ویسے ہی کھلی فروخت ہوتی ہیں، اس لیے حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کرنا کہ عام آدمی کے استعمال کی چیزوں کو اس میں سے چھوٹ دی گئی ہے، صحیح نہیں
انہوں نے کہا جب ایک عام آدمی گیس اور بجلی کا بل ادا کرتا ہے تو اس پر سیلز ٹیکس لگتا ہے اور اب صارفین کو اضافی بل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ادا کرنا پڑے گا
’فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بھی بڑھا دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ ہونے والی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جو عام لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق نے بھی یہی کہا کہ حکومت کی جانب سے جن چیزوں کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، وہ تو کھلی صورت میں فروخت ہوتی ہیں تاہم بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو عام استعمال کی چیزیں ہیں اور ان پر اضافی سیلز ٹیکس صارفین کو ادا کرنا پڑے گا
انہوں نے کہا کہ ’خوردنی تیل، چائے وغیرہ بھی عام آدمی کے استعمال کی چیزیں ہیں جن پر اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔‘
’سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ تعمیراتی لاگت بھی بڑھ جائے گی اور اس کا اثر ایک عام آدمی پر بھی پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جی ایس ٹی میں اضافے سے موبائل کے ڈیٹا چارجز بھی بڑھ جائیں گے یعنی کال کرنے اور انٹر نیٹ استعمال کرنے کے چارجز میں بھی اضافہ ہو گا جو ایک عام شخص کی آج کل ایک اہم ضرورت ہے۔‘
’فی الحال بین الاقوامی مارکیٹ میں اجناس اور توانائی مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے ورنہ ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ملکی صارفین کو روپے کی بے قدری اور اضافی سیلز ٹیکس کی وجہ سے بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی۔‘
کراچی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئیر نائب صدر توصیف احمد نے کہا کہ سیلز ٹیکس ہر شعبے میں بڑھا دیا گیا ہے۔ ’اس کا مطلب ہے کہ صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی اس کی زد میں ہوگا اور وہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو بڑھا ئے گا جو لازمی طور پر صارفین سے وصول کی جائے گی۔‘
ان کے مطابق ’اضافی سیلز ٹیکس سب سے زیادہ عام آدمی کو متاثر کرے گا کیونکہ وہی اینڈ کنزیومر ہوتا ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے زائد رہی جو 48 برس میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ ملک میں اشیائے خورد و نوش، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا بڑا اضافہ ہے
ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح، جو پہلے ہی تقریباً پانچ دہائیوں کی بلند سطح پر موجود ہے، میں اضافی سیلز ٹیکس سے آنے والے اثر کا ایک صحیح تعین تو پاکستان میں ممکن نہیں تاہم اندازوں کے مطابق مہنگائی کی شرح تیس فیصد سے زیادہ ہو جائے گی
ان کے مطابق اس میں بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی چیزوں میں ہونے والا اضافہ اور اس کے ساتھ گیس، بجلی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہوگا
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا ’پاکستان میں کاروبار پر کوئی نگرانی تو ہے نہیں کہ وہ قیمتوں کا تعین کر سکے۔ ایک جانب اضافی سیلز ٹیکس صارفین کے لیے چیزوں کو مہنگی کرے گا تو دوسری جانب کاروباری افراد اور دکاندار اپنے حساب سے چیزوں کو بیچیں گے۔‘
تو مہنگائی کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ جب تک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان موجود ہے تو مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی کیونکہ یہ پروگرام اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ جن میں ملکوں کو جکڑ کر وہاں کی عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالا جائے
دوسری جانب حکومتِ پاکستان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد ملک میں اشیا کی قیمتوں میں بڑا اضافہ متوقع ہے
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 22 روپے 20 پیسے کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بعد یہ 272 فی لیٹر میں دستیاب ہے۔ اسی طرح ڈیزل 17 روپے 20 پیسے کے بعد 280 روپے فی لیٹر میں مل رہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافے کے بعد حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے اور عوام یہ اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومتی فیصلے اور اس کے اثرات پر بات ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز اور میمز کا ایک طوفان ہے جہاں موجودہ حکومت کی کارکردگی کا موازنہ سابق حکومت سے کیا جا رہا ہے
احسن احمد چوہان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو گئے ہیں۔ شفاف انتخابات کے سوا پاکستان کے معاشی بحران کا کوئی دوسرا حل نہیں
ایک ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں "غریب تباہ دے، مڈل کلاس بھی تباہ دے۔ اب جلد ہی اپر کلاس بھی تباہ دے۔”
ارسلان نصیر نے پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر اپنےایک ٹوئٹ میں سوال کیا کہ ملک سے غربت ختم کرنی ہے یا غریب؟
سارہ الیاس نامی ٹوئٹر صارف نے حکمراں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا "انتظار کیجیے ایک سینئر لیگی عہدےدار کی طرف سے ابھی آپ کو یہ بھی سننا ہے کہ میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کے ساتھ نہیں ہوں، میں تو اپنے عوام کے ساتھ ہوں۔ مجھے اپنی عوام کا بہت درد ہے لیکن آپ نے ڈار صاحب کا ساتھ دینا ہے۔”
تحسین قاسم نامی ٹوئٹر صارف نے ایک میم شیئر کی جس پر لکھا ہے ”ہم کو مارو، ہم کو زندہ مت چھوڑو“