پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف سربراہ کی پاکستانی عوام کے ساتھ ’ہمدردی‘!

ویب ڈیسک

اگرچہ پاکستانی معیشت پر اشرافیہ کے تسلط کی بحث نئی نہیں ہے، مگر اسے ایک نئی جہت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کے اس بیان سے ملی کہ پاکستان اپنے ہاں غریب شہریوں کا تحفظ کرے اور امیروں پر نئے ٹیکس لگائے

اقتصادی ماہرین اور سماجی تجزیہ کاروں میں یہ خیال عام ہے کہ پاکستان میں صنعت کار، جاگیردار، نوکر شاہی، جج اور فوجی جرنیل تو حکومتی مراعات اور عنایات کے مزے لیتے رہتے ہیں، لیکن ملک کے آٹھ کروڑ سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے شہری ایک نوالے کے لیے بھی ترس کر رہ گئے ہیں۔ جبکہ قرضوں کے حصول کے لیے حکومتی اقدامات کی وجہ سے بڑھتی مہنگائی نے اب متوسط طبقے کا جینا بھی دوبھر کر دیا ہے

زبردست دباؤ ڈال کر ٹیکسز اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کروانے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی خاتون مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ایک انٹرویو میں کہا ”مجھے پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، جو گزشتہ برس آنے والے سیلابوں کی وجہ سے اقتصادی طور پر شدید متاثر ہوئے اور ان سیلابوں نے ملک کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کیا۔“

آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا ”پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے، ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔“

کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے: ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں۔ دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے

پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی وڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکار کو انتہائی معمولی رقوم رقم ادا کرتے ہیں

لیکن ہمیشہ ٹیکسوں میں اضافے کی بات کرنے والی آئی ایم ایف نے کبھی بھی قرضوں کی ادائیگی اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے سے مشروط نہیں کی، ایسے میں کرسٹالینا جارجیوا کا یہ بیان غریبوں کے ساتھ محض ہمدردی جتانے کے دکھاوے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا

اگرچہ پاکستان کے معاشی ماہرین ہمیشہ آئی ایم کے نمائندوں کا کردار ہی ادا کرتے رہے ہیں، لیکن معاشی امور کے کئی ماہرین ایسے بھی ہیں، جن کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف خود ایک غریب دشمن ادارہ ہے، جس کی پالیسیوں نے غربت کو فروغ دیا ہے

کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کہتی ہیں ”آئی ایم ایف کی سربراہ کا پاکستان کے حوالے سے بیان صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکہ، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ادارہ ان کو قرض دیتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں نہ صرف حکمرانوں بلکہ آئی ایم ایف کا ہاتھ بھی ہے۔‘‘

یاد رہے کہ حالیہ حکومت میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سربراہی میں دبئی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران خبریں سامنے آئی تھیں کہ قرض دینے کے لیے آنے والی آئی ایم ایف ٹیم محدود ارکان پر مشتمل تھی اور تھری اسٹار ہوٹل میں رکی تھی، جبکہ قرض لینے کے لیے جانے والا کثیر افراد پر مشتمل پاکستانی وفد سیون اسٹار ہوٹل میں قیام پذیر تھا

ملکی خزانے سے پاکستانی اشرافیہ کی عیاشیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ںہ ہی کوئی بین الاقوامی ادارہ نہ دنیا کی کوئی حکومت اس بات سے بے خبر ہے کہ پاکستان کی مسندِ حکمرانی پر براجمان یہ مہرے دولت کی لوٹ کھسوٹ سے غیر ملکی بینک اکاؤنٹ بھرے بیٹھے ہیں

کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔ یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے

اس حوالے سے پاکستان کی معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں ”میں اس بات سے متفق ہوں کہ پاکستان پر واقعی اشرافیہ کا تسلط ہے۔ ہمارے صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہمارے جرنیلوں اور ججوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہری اپنے بچوں کو بڑی تعداد میں کیمبرج امتحان دلواتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے ”صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی اس اشرافیہ کا حصہ نہیں ہیں، فوجی جرنیل اور فوج کے کمرشل ادارے بھی ان سبسڈیز سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیرِ انتظام چلنے والے بہت سے تجارتی اور صنعتی اداروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں۔‘‘

عائشہ صدیقہ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کا تسلط اس لیے ہے کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں

وہ کہتی ہیں ”آپ پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کا تجزیہ کر لیں تو اس گھرانے کا ایک فرد کاروبار میں ہوگا، دوسرا زراعت سے وابستہ ہوگا، تیسرا بیوروکریسی میں، چوتھا فوج میں اور ایک ممکنہ طور پر عدلیہ میں بھی ہوگا۔ تو ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اشرافیہ کو توڑنا مشکل ہے‘‘

تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اس تسلسل کو توڑنا ممکن ہے

معاشی امور کی ماہر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کہتی ہیں ”پاکستانی حکومتیں کثیرالقومی کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ کو زمین اور قدرتی وسائل اونے پونے داموں بیچ دیتی ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی اشرافیہ سے ان کو بیچے جانے والے وسائل کی قیمتیں مارکیٹ کے نرخوں کے حساب سے وصول کی جائیں اور ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کو حاصل تمام مراعات ختم کی جائیں‘‘

پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں آئی ایم ایف پر تنقید کرنے والی ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے ”آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں۔ لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔‘‘

ڈاکٹر عذرا طلعت سعید نے کہا ”آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close